Maktaba Wahhabi

68 - 112
آدم علیہ السلام کے بیٹے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ اور تمہیں جماعتیں اور قبیلے بنادیا ہے، تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرسکو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے اور خوب باخبر ہیں۔ ‘‘ ] د: امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اَلْحَسَبُ اَلْمَالُ وَالْکَرَمُ التَّقْوَی۔‘‘ ’’ حسب و نسب مال ہے اور [باعث] تکریم تقویٰ ہے۔ ‘‘ علامہ طیبی شرح حدیث میں تحریر کرتے ہیں: لغوی اعتبار سے [الحسب] سے مراد اپنے اور اپنے آباء و اجداد کے کارہائے نمایاں اور [الکرم] سے مراد خیر، عزت اور فضائل کی متعدد اقسام کا مجموعہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے وہ معانی بیان فرمائے ہیں، جوکہ لوگوں کے ہاں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہیں: اور وہ معانی یہ ہیں، کہ لوگوں کے نزدیک فقیر حسب و نسب والا نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کی نہ تو کچھ توقیر ہوتی ہے، نہ ہی اس کی پروا کی جاتی ہے۔ ان کے ہاں حسب و نسب والا تو وہ ہے، جس کو مال میں فراوانی میسر ہو اور وہ آنکھوں کو بھاتا ہو۔ لیکن ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل تکریم نہیں۔ ان کے نزدیک معزز و محترم تو وہ شخص ہے، جس نے تقویٰ کی چادر اوڑھ رکھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ أَتْقَاکُمْ} [یقینا تم میں سے سب سے زیادہ باعزت وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقی ہے] [1] شرح حدیث میں ملا علی قاری رقم طراز ہیں: اس کے معنی کے متعلق کہا گیا ہے: جس چیز کے ساتھ آدمی لوگوں کے ہاں بلند قدر ہوتا ہے، وہ مال ہے، اور جس چیز کے ساتھ آدمی اللہ تعالیٰ کے ہاں
Flag Counter