Maktaba Wahhabi

91 - 112
ہے، کسی چیز میں اللہ تعالیٰ کی خیر کا باقی رہنا ہے۔ [1] اور علامہ بغوی کے بقول کسی چیز کا دوام و استمرار ہے۔ [2] دونوں حضرات کے بیان کردہ معانی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے، کہ ایمان و تقویٰ والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ چیزوں کی خیر جاری ہوگی، نہ تو ان چیزوں میں شرہوگا اور نہ ہی بعد میں ان کے نتائج اور اثرات میں ۔ علامہ اصفہانی نے خود اس بات کو واضح کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ اس کو [بَرَکَۃٌ] اس لیے کہا گیا ہے، کیونکہ اس میں خیر اسی طرح باقی رہتی ہے، جس طرح کہ [بِرْکۃ] [حوض ]میں پانی باقی رہتا ہے۔ ‘‘[3] اس بارے میں شیخ سیّد محمد رشید رضا نے لکھا ہے: اہل ایمان پر جو برکت و نعمت کھولی جاتی ہے۔ وہ اس کے عطا کیے جانے پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں، وہ ان پر راضی ہوتے ہیں، ان کی کرم نوازی پر شاداں و فرحاں ہوتے ہیں اور ان کی نعمتوں کو شر کی بجائے راہِ خیر میں، فساد کی بجائے اصلاح میں استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اپنے اس طرز عمل کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بدلہ دنیا میں نعمتوں میں اضافے اور آخرت میں عمدہ ثواب کی صورت میں ملتا ہے۔ [4] اسی حقیقت کو شیخ ابن عاشور نے بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’ [اَلْبَرْکَۃُ] کا معنی ایسی عمدہ خیر ہے، کہ آخرت میں اس کا کوئی برا اثر نہیں ہوگا۔ اور یہ نعمت کی بہترین صورت ہوتی ہے۔ ‘‘[5] ۲: ارشادِ باری تعالیٰ{لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ} میں[برکات] جمع کاصیغہ استعمال کیا گیا ہے اور یہ اس بات پر دلالت کناں ہے، کہ انہیں ملنے والی بابرکت اشیاء گونا گوں اقسام کی ہوتی ہیں۔ [6] ۳: اللہ تعالیٰ نے {بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَائِ} فرمایا: [برکات السماء] سے مراد بارش ہے اور [برکاتِ الأرض] سے مقصود پودے، پھل، مویشیوں اور چوپاؤں کی کثرت اور امن و سلامتی کا حصول
Flag Counter