Maktaba Wahhabi

122 - 224
اس سرسری جائزہ اور طائرانہ نظر[1] ہی سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلاف کس ادب عالی اور اخلاق فاضلہ کے حامل تھے جن پر اختلاف اجتہاد کا کوئی مضر اثر نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہ گراں قدر آداب ان شخصیتوں کے ہیں جنہوں نے درس گاہ محمدی سے منسلک ہو کر تکمیل علوم کی اس لیے نفسانیت ان پر کہیں غلبہ نہ پا سکی۔ ان ائمہ کرام کے بلند کردار، لطیف علمی مباحثے جن پر ادب رفیع اور اسلامی اخلاق سایہ فگن رہا۔ ان کے بے شمار نمونوں سے طبقات وتراجم، فضائل و مناقب اور تاریخ کی کتابیں بھری ہوئی ہیں ۔ آج جب کہ ہمارے تمام مسائل و معاملات اختلاف و انتشار کا شکار ہیں ۔ ایسے نازک دور میں ہمیں سکون قلب کے لیے اسی شجر سایہ دار کا سہارا لینا چاہیے اور انہیں مبارک آداب و اخلاق سے اپنے آپ کو آراستہ کر لینا چاہیے جنہیں اسلاف کرام ہمارے لیے چھوڑ گئے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سنجیدہ کوشش کا صرف یہی ایک ذریعہ ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ان آداب کا پور اپورا لحاظ نہیں رکھا گیا یا مذکورہ جہتوں کے نشان نظر نہیں آتے لیکن یہ ایسے متاخرین کے طرزِ عمل سے متعلق ہے جن میں تقلید و تعصب کی روح سرایت کر گئی تھی اور وہ اختلاف فقہاء کے اندر چھپی ہوئی علمی روح کی حقیقت اور ان آداب کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکے جو صرف تلاشِ حق کی سچی نیت کے نتائج تھے۔ اور جن کا مقصود محض یہ تھا کہ شارع حکیم کے اصل ہدف تک ان کی رسائی ہو سکے۔ غالباً یہ وہ لوگ تھے جن کے بارے میں امام غزالی نے فرمایا ہے: فقہاء جو مطلوب تھے اب طالب بن گئے۔ سلاطین و امراء سے دُور رہ کر با عزت تھے اور ان کی رضا جوئی میں ذلیل ہونے لگے۔ مطلوب شخص خود مالک ہوتا ہے وہ حق بات کی ہی طلب کرتا ہے اور طالب ضمیر فروش ہوتا ہے اس کے خریدار کو جو بات اچھی لگے وہی اس کے زبان سے نکلتی ہے۔ ایسے طالبوں نے
Flag Counter