Maktaba Wahhabi

150 - 224
مدینہ کو علم ہے۔ ان سب نے کہا: نہیں ۔ آپ نے فرمایا: اگر وہ جان جاتے تو تمہارے ذریعہ میں انہیں نصیحت کرتا۔ یعنی آپ انہیں سزا دیتے تاکہ دوسروں کے ذریعہ انہیں عبرت و موعظت ہو۔ اس میں سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہمیں واضح درس دیا ہے کہ افضل صورت وہی ہے جو مسلمانوں کے لیے قرآنِ عظیم نے پیش کی ہے اور اسی مثالی صورت پر حتی الامکان ہر مسلمان کو عمل کرنا چاہیے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے تو یہ سمجھے کہ اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے اور اگر وہ کبائر سے بچتا رہے تو ان شاء اللہ اسے بھی بھلائی کا بہت حصہ ملے گا لیکن اس کی ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہیے کہ افضل صورت کا عامل اوراس کا پابند ہو سکے اور ادنیٰ درجہ پر قانع ہو کر وہیں پڑا رہ جائے۔ ۵۔ موجودہ دور میں اسباب اختلاف کم کرنے اور اس کے آداب سے مزین ہونے اور اس پر مضبوطی سے عمل کرنے میں یہ چیز کافی معاون ہو سکتی ہے کہ فقہاء و اسلاف کرام کے اسباب اختلاف اور ان کی معقولیت کا صحیح علم و معرفت حاصل ہو جائے کیونکہ ان کے اختلافات اپنے موضوع کی معقول بنیادوں پر قائم ہوا کرتے تھے اور وہ حضرات مجتہد تھے۔ جن کا ہر فرد طلب حق کی راہ میں گم شدہ حکمت کاجویا ہوتا اور اس کے نزدیک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ گم شدہ حکمت اس کے ذریعہ یا اس کے کسی بھائی کے ذریعہ ثابت اور ظاہر ہو رہی ہے۔ ۶۔ آدابِ اختلاف پر ثابت قدمی سے عمل کرنے میں یہ بات بھی مفید ہو سکتی ہے کہ مسلمان ان تباہ کن خطرات، ہولناک چیلنجوں اور سازشی منصوبوں سے اچھی طرح آگاہ ہو جائیں جو اعداء اسلام نے دعوتِ دین کے علمبردار مسلم نوجوانوں کے لیے تیار کر رکھے ہیں ۔ دشمنانِ اسلام کو اس سے بحث نہیں کہ کون سی جماعت یہ کام کر رہے ہے بلکہ مسلک اور نقطۂ نظر کے اختلاف کے باوجود وہ ہر داعیٔ اسلام کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ ان اُمور و خیالات سے واقفیت کے بعد بھی مسلمانوں میں اختلاف کی آگ بھڑکانا یا اس
Flag Counter