Maktaba Wahhabi

116 - 184
حجاج بن یوسف کی جانب اپنے عزم کے متعلق مراسلہ بھجوا دیا۔ چونکہ حجاج اور ابن اشعث کے درمیان پہلے بھی اختلافات تھے ؛ پھر اوپر سے ابن اشعث کا مراسلہ حجاج کے فرامین سے متصادم بھی تھا تو مراسلہ دیکھتے ہی حجاج سیخ پا ہو گیا ؛ کہ ابن اشعث نے رتبیل شاہ کی سر کوبی تک اپنے مشن کو جاری کیوں نہیں رکھا؟ اس مراسلے کے جواب میں حجاج نے انتہائی سخت الفاظ میں خط لکھا اور اس میں ابن اشعث کو سخت سست،بزدل، اور کمزور لکھنے کے بعد رتبیل شاہ کی سر کوبی کے مشن کو جاری رکھنے کے احکامات دوبارہ جاری کئے۔ جب حجاج کا جوابی خط ابن اشعث کو موصول ہوا تو انہوں نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کر کے حجاج کی تحریر دکھائی پھر انہیں سابقہ مشورہ یاد کروایا جس میں سب کے سب جنگ روک کر مفتوحہ علاقوں کی دیکھ بھال کے لیے متفق ہوئے تھے اس کے بعد حجاج کے حکم کو بیوقوفانہ قرار دیا۔ یہ باتیں سن کر سب نے بیک زبان کہا: "اللہ کے دشمن حجاج کی نہ کسی بات پر کان دھرتے ہیں اور نہ ہی اس کی اطاعت کریں گے" پھر انہی میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر حجاج کی مذمت کرنا شروع کر دی اور ایک ایک کر کے اس کی برائیاں گنوانے لگا، اس کے بعد حجاج کی بیعت توڑنے کی دعوت دی اور اس پر لوگوں نے حجاج کی بیعت توڑ کر ابن اشعث کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اسے اپنا حاکم تصور کر لیا۔ اس پورے واقعے کے بعد ابن اشعث نے ترکوں کے شاہ رتبیل کو صلح صفائی کے لیے مراسلہ بھیجا [1]تا کہ اپنی ایک جانب محفوظ کر کے حجاج سے لڑائی کے لیے تیاری کر سکے، شاہ رتبیل نے ابن اشعث کی یہ پیشکش قبول کی اور ابن اشعث اپنے "موروں کے لشکر" کو لے کر مسلمانوں سے جنگ کے لیے عراق کی جانب واپس ہو لیا،ابھی یہ لوگ راستے میں ہی تھے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ حجاج کی بیعت توڑنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ عبدالملک بن مروان
Flag Counter