Maktaba Wahhabi

157 - 184
کیونکہ اول الذکر میں صرف راسخ العلم، مصالح و مفاسد پر گہری نظر رکھنے والے اہل علم ہی گفتگو کر سکتے ہیں،جنہیں اس بات کا ادراک ہو کہ دو یکساں امور میں ترجیح کسے دی جاتی ہے؟ اس آخری بات کی فتنوں کے وقت ضرورت اور اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، حتی کہ مخصوص فتنوں کے متعلق وارد شدہ نصوص کی معرفت سے بھی زیادہ اس آخری بات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں : "جب فتنے سر اٹھاتے ہیں تو صرف اہل علم کو ہی ان کا ادراک ہوتا ہے، لیکن جب فتنے چھٹنا شروع ہو جاتے ہیں تو تب ہر جاہل کو اس کا علم ہوتا ہے"[1] ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : "اگر راسخ العلم شخصیت پر سمندروں کی موجوں کی طرح پے در پے شبہات وارد کئے جائیں تو بھی اس کے یقین میں رخنہ نہیں پڑتا اور نہ ہی شکوک پیدا ہوتے ہیں ؛ کیونکہ اس کا علم پختہ ہو چکا ہے اور شبہات اسے بر انگیخت نہیں کر سکتے، بلکہ کوئی بھی شبہ وارد ہو تو اس کے علم کے سامنے پاش پاش ہو جاتا ہے"[2] یہی وجہ ہے کہ راسخ العلم لوگ ہی فتنوں میں ثابت قدم رہتے ہیں،وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتے بلکہ مکمل چھان پھٹک کرتے ہیں،انہیں جذبات اپنا اسیر نہیں بنا سکتے اور نہ ہی کوئی انہیں بر انگیخت کر سکتا ہے۔ چنانچہ فتنوں کے دور میں جن اہل علم سے رجوع کیا جائے ان کی پہچان پہلے سے ہونی چاہیے اس طرح ثابت قدمی کے امکان بہت زیادہ روشن ہو جاتے ہیں اور انسان اگر کسی فتنے میں ملوث ہو بھی جائے اس کے لیے واپسی کا راستہ باقی ہوتا ہے۔
Flag Counter