Maktaba Wahhabi

160 - 184
وَ اِلٰى اُولِي الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ١ ﴾[النساء:83] ’’اور جب کوئی امن کی یا خطرے کی خبر ان تک پہنچتی ہے تو اسے فوراً اڑا دیتے ہیں ۔ اور اگر وہ اسے رسول یا اپنے کسی ذمہ دار حاکم تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جاتی جو اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں ۔‘‘ اس آیت میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم ہے کہ جدید ترین مسائل اور پر فتن دور میں رجوع کریں تو راسخ العلم علمائے کرام کی جانب،انفرادی حیثیت میں کسی عالم، یا عامی شخص یا مفکر اور سیاسی شخصیتوں،یا بدعتی اور صحیح عقیدے سے منحرف لوگوں کی جانب رجوع مت کریں ۔ مذکور بالا آیت کی تفسیر میں سعدی رحمہ اللہ کا موقف پہلے گزر چکا ہے کہ : "یہاں ایک تربیتی اصول بیان کیا گیا ہے کہ جس وقت کسی معاملے میں بحث و تکرار ہو جائے تو پھر فیصلے کے لیے اس شخص سے رجوع کریں جو معاملہ فہمی مکمل دسترس رکھتا ہو اور اس میں متخصص ہو، پھر اس کی بات کو رد نہ کیا جائے؛ کیونکہ اس کی رائے صحیح موقف کے زیادہ قریب ہو گی اور اس میں غلطی کا امکان کم سے کم ہو گا"[1] اسی طرح خطیب بغدادی اپنی کتاب: "الفقيه والمتفقه" میں کہتے ہیں : "ایک آدمی ربیعہ کے پاس آیا تو آپ رو رہے تھے، اس شخص نے پوچھا: آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ وہ شخص ربیعہ کے رونے کی وجہ سے گھبرا گیا اور پھر پوچھا: آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ؟ اس پر ربیعہ نے کہا: نہیں مجھے کوئی تکلیف تو نہیں ہے، لیکن آج ایسے شخص سے فتوی پوچھا گیا جس کے پاس علم ہی نہیں ہے، یہ تو اسلام میں بہت ہی سنگین امر ہے۔
Flag Counter