Maktaba Wahhabi

161 - 184
میں [خطیب بغدادی] کہتا ہوں کہ: مسلمانوں کے حکمران کو چاہیے کہ مسند افتاء پر براجمان مفتیوں کی چھان پرکھ تسلسل کے ساتھ جاری رکھے، لہٰذا گر کوئی فتوی دینے کا اہل ہے تو اسے اس کے منصب پر قائم رکھا جائے اور جو اس کا اہل نہ ہو تو حکمران اسے سختی کے ساتھ منع کر دے اور حکم عدولی کی صورت میں سخت سزا کی تنبیہ بھی کرے" اس لیے مبتدئین کو روز مرہ کے عمومی امور میں بھی فتوی دینے سے قبل اہل علم سے مشورہ اور اجازت لے لینی چاہیے، چہ جائیکہ جدید اور فتنوں کے متعلق فتوے صادر کریں ۔ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں : "مسند حدیث اور فتوی پر بیٹھنے کا ہر خواہش مند اس مسند کا حقدار نہیں ہوتا، اس کے لیے پہلے وہ اہل حل و عقد اور مسجد والوں سے مشورہ کرے، اگر وہ سمجھیں کہ مسند حدیث اور فتوی پر براجمان ہونے کی صلاحیت ہے تو ٹھیک [ورنہ ہر گز یہ اقدام نہ کرے] اسی لے میں بھی اس وقت تک مسند حدیث اور فتوی پر نہیں بیٹھا جب تک میرے بارے میں 70 مشائخ نے یہ گواہی نہیں دے دی کہ میں اس کا اہل ہوں "[1] اسی طرح ایک اور جگہ کہتے ہیں : "[ابتدا میں ] جب مجھ سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو پہلے میں اپنے سے بڑے علمائے کرام سے پوچھتا: کیا میں اس سوال کا جواب دینے کا اہل اور مجاز ہوں ؟ چنانچہ اس بارے میں میں نے ربیعہ سے اجازت مانگی ایسے ہی یحیی بن سعید سے اجازت مانگی تو انہوں نے مجھے حکما فتوی دینے کو کہا۔ اس پر کسی نے پوچھ لیا: ابو عبد اللہ! [امام مالک کی کنیت]اگر وہ آپ کو
Flag Counter