Maktaba Wahhabi

104 - 104
ہونے کی شکل میں ) اکتیس ہوجائینگے۔‘‘ لہٰذا اگر اہلِ بلد اپنے روزے مکمل کرکے عید کریں مگر اسکے تاخیر رؤیتِ ہلال اور تاخیرِ آغازِ رمضان کی وجہ سے روزے پورے ہونے کی بجائے صرف اٹھائیس[۲۸] رہ جائیں تو بھی یہ ان مقامی لوگوں کے ساتھ عید کرلے اور بعد میں ایک روزہ قضاء کرلے کیونکہ رمضان کسی بھی صورت میں اٹھائیس[۲۸] دنوں کا نہیں ہوسکتا۔ ’’اگر تقدیمِ رؤیتِ ہلال اور تقدیمِ آغازِ رمضان کی وجہ سے اسکے روزے تو تیس[۳۰] ہوگئے مگر مقامی لوگ اپنی رؤیت کے حساب سے اگلے دن بھی روزہ رکھیں تو اس شخص کو اختیار ہے کہ یہ افطار کرلے(یعنی روزہ نہ رکھے) مگر(مقامی رؤیت کے حساب سے جاری) رمضان المبارک کے احترام کی خاطر سرِ عام کھانے پینے سے گریز کرے۔اور چاہے تو مقامی لوگوں کے ساتھ احتیاطاً محض نفلی طورپر روزہ رکھ لے۔ نفلی اس لیے کہ رمضان المبارک کے دن بالاتفاق اکتیس[۳۱] ہوہی نہیں سکتے۔اور وہ اپنے تیس[۳۰] روزے پورے کرچکا ہے اور یہ دوسری(نفلی روزہ رکھ لینے والی) صورت ہی بظاہر افضل ہے‘‘۔[1] علّامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اِسی سلسلہ میں ایک استفتاء کا جواب دیتے ہوئے فتویٰ صادر فرمایا ہے جس میں اٹھائیس[۲۸] روزے رہ جانے کی شکل میں تو وہ انتیسواں [۲۹] روزہ رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں کہ کوئی عربی مہینہ انیتس[۲۹] دنوں سے کم ہوتا ہی نہیں البتہ دوسری شکل میں اگر اسے اکتیسواں [۳۱] روزہ بھی رکھنا پڑے تو وہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : ((اَلصَّوْمُ یَوْمَ تَصُوْمُوْنَ وَالْاِفْطَارُ یَوْمَ تُفْطِرُوْنَ)) ’’روزہ اسی دن سے شروع ہے جس دن سے تم سب روزہ رکھو اور عید اسی دن ہے جس دن تم سب کی عید ہو‘‘۔
Flag Counter