Maktaba Wahhabi

156 - 277
جذب کر لیتا ہے،پھر اس سے پودے اور گھاس وغیرہ اگتے ہیں۔اور اس کا ایک ٹکڑا انتہائی سخت ہوتا ہے اور اس پر پانی رک جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔چنانچہ وہ اسے پیتے اور پلاتے ہیں اور اسی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔اور یہی بارش ایسی زمین پر بھی برستی ہے جو سپاٹ اور چکنی ہوتی ہے اورجس پر نہ پانی رکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی چیز اگتی ہے۔تو یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کی اور اسے اللہ تعالیٰ نے اس چیز کے ذریعے نفع پہنچایا جس کے ساتھ مجھے اس نے مبعوث کیا ہے،چنانچہ وہ خود بھی علم حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی تعلیم دیتا ہے۔ اور یہ مثال ہے اس آدمی کی جو اس علم کے ذریعے اونچا مقام حاصل نہیں کرتا اور اللہ کی اس ہدایت کو قبول نہیں کرتا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے۔‘‘[صحیح البخاری:کتاب العلم باب فضل من علم وعلَّم:۷۹،مسلم:۲۲۸۲] امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جو ہدایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اسے بارش سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ زمین تین قسم کی ہوتی ہے۔اسی طرح لوگ بھی تین قسم کے ہوتے ہیں: پہلی قسم:ایک تو وہ زمین ہوتی ہے جو بارش سے فائدہ اٹھاتی ہے،چنانچہ وہ بارش کے آنے سے پہلے مردہ ہوتی ہے لیکن اس کے بعد وہ زندہ ہو جاتی ہے اور سبزہ وغیرہ اگاتی ہے جس سے لوگ اور جانور وغیرہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس علم پہنچتا ہے تو وہ اسے یاد کر لیتے ہیں جس سے ان کا دل زندہ ہو جاتا ہے اور وہ اس پر عمل کرکے خود بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے لوگوں تک پہنچا کر دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ دوسری قسم:ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو خود تو بارش کے پانی سے کوئی فائدہ نہیں
Flag Counter