Maktaba Wahhabi

199 - 277
ہے۔ اور میرے ہاتھ میں’’الحمد’‘ کا جھنڈا ہو گا اور اس میں بھی کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔اور اس دن حضرت آدم(علیہ السلام)اور ان کے علاوہ دیگر تمام انبیاء(علیہم السلام)میرے جھنڈے تلے جمع ہو نگے۔سب سے پہلے میں شفاعت کرونگا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی اور اس میں بھی کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔’‘ [صحیح ابن حبان:۶۴۷۸،ابو یعلی:۷۴۹۳،وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع:۱۴۶۸] علامہ العز بن عبد السلام رحمہ اللہ کہتے ہیں: ‘’سید اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بلند صفات اور اعلی اخلاق کا حامل ہو۔اور اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں جو سید کا لفظ استعمال کیا ہے وہ یہ بتا رہا ہے کہ آپ دنیا وآخرت میں سب سے افضل ہیں۔دنیا میں اس لئے کہ آپ اعلی اخلاق کے حامل تھے اور آخرت میں اس لئے کہ آپ کو آپ کی اعلی صفات وعادات کی بناء پر جنت میں بھی سب سے اعلی وارفع مقام ومرتبہ عطا کیا جائے گا۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ’’میں روزِقیامت اولادِ آدم کا سردار ہو نگا’‘یہ اس لئے ہے کہ تاکہ امت آپ کا مقام ومرتبہ پہچان لے۔ چونکہ عام طور پر جب کوئی شخص اپنی تعریف کرتا ہے تو اس میں فخر کا پہلو پایا جاتا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مقام ومرتبہ بیان کرنے کے فورا بعد فرمایا:’’اس میں کوئی فخر کی بات نہیں ہے’‘تاکہ کوئی شخص اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فخر کرتے تھے۔[بدایۃ السول فی تفضیل الرسول صلی اللّٰه علیہ وسلم۔العز بن عبد السلام،تحقیق الألبانی:ص ۳۴] اورحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہونگے۔ہر امت اپنے نبی کے پیچھے جائے گی اور کہے گی:اے فلاں !
Flag Counter