Maktaba Wahhabi

35 - 277
﴿وَلِکُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ﴾[الأنعام:۱۳۲]’’اور ہر ایک کیلئے ان کے اعمال کے سبب درجے ملیں گے اور آپ کا رب ان کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔’‘ اسی بناء پر اسلامی عقیدے کا حامل انسان تمام امور میں سنجیدہ ہوتا ہے اور اسے نیک عمل کرنے کا جو بھی موقعہ ملتا ہے وہ اجر وثواب کے حصول کی خاطر اسے غنیمت تصور کرتا ہے۔اور جہاں کہیں وہ کسی گناہ کے قریب جاتا ہے تو عذابِ الٰہی کے ڈر سے اس سے دور رہتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:(اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ،وَفِیْ کُلٍّ خَیْرٌ،اِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ،وَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ وَلاَ تَعْجَزْ،وَإِنْ أَصَابَکَ شَیْئٌ فَلاَ تَقُلْ لَوْ أَنِّیْ فَعَلْتُ کَذَا لَکَانَ کَذَا،وَلٰکِنْ قُلْ:قَدَّرَ اللّٰهُ وَمَا شَائَ فَعَلَ،فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ)[مسلم:۲۶۶۴] ترجمہ:’’طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہے اور دونوں میں خیر موجود ہے۔اور تم اس چیزکے حصول کیلئے کوشش کرو جو تمہارے لئے نفع بخش ہو اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر و اور عاجز نہ بنو۔ اوراگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسے کرتا تو ایسے ہوجاتا بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھا تھا اور اس نے جو چاہا وہ کر دیا،کیونکہ لفظ)لو(یعنی(اگر)شیطانی عمل کو کھولتا ہے۔’‘ 6۔ اسلامی عقیدے کا ایک مقصد ایسی مضبوط امت تشکیل دینا ہے جو اپنے دین کی خاطر اپنی ہر چیز کو چاہے قیمتی ہو یا ہلکی قربان کردے۔اور اس سلسلے میں پیش آنے والی کسی مصیبت کی پرواہ نہ کرے۔اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا
Flag Counter