Maktaba Wahhabi

67 - 103
وحیِ الٰہی میں سے کوئی جنّ کسی کلمہ کو کیسے سن لیتا ہے؟ اس امر کی مزید وضاحت صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث سے ہو تی ہے چنانچہ ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((إِنَّ الْمَلٰٓئِکَۃَ تَنْزِلُ فِی الْعَنَانِ وَ ھُوَ السَّحَابُ ۔فَتَذْکُرُ الْأَمْرَ قُضِیَ فِی السَّمَآئِ فَیَسْتَرِقُ الشَّیٰطِیْنُ السَّمْعَ فَتَسْمَعُہٗ فَتُوْتِیْہِ إِلٰی الْکُھَّانِ فَیَکْذِبُوْنَ مَعَھَا مِائَۃَ کِذْبَۃٍ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِھِمْ۔))[1] ’’(اللہ تعالیٰ کے اوامریا وحیِ الٰہی سن کر ) فرشتے جب بادلوں میں اترتے ہیں تب وہ اُس امرِ الٰہی کا باہم تذکرہ کرتے ہیں جو آسمان میں طے پایا ہو۔ شیطان چوری چُھپے کچھ سننے کے لیٔے کان لگاتا ہے اور کسی امر کے بارے میں کچھ سن لیتا ہے۔ وہ اس بات کو کاہنوں تک پہنچا دیتا ہے۔ پھر وہ کاہن لوگ اس بات کے ساتھ اپنی طرف سے سَو جھوٹ ملا کر بیان کر تے ہیں ۔‘‘ یہ دونوں ارشادات ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کُتبِ احادیث میں سے پوری ملّت مسلمہ کے نزدیک یکے بعد دیگرے سب سے صحیح و مستند ترین کتابوں بخاری شریف و مسلم شریف میں منقول ہیں جن سے معلوم ہورہا ہے کہ علمِ غیب کے الٰہی دعوے کر نے والے لوگوں کی اصل حقیقت کیا ہے؟ ان شیاطینِ انس و جِنّ کا باہمی تعلق کیا ہے؟اگر ان کی کوئی بات درست نکل بھی آئے تو اس میں بھی ایک سچ اور سَو جھوٹ کی آمیزش ہوتی ہے۔اور وہ درست حصہ بھی وحیِ شیطان ہو تا ہے۔ اب فرمائیے !جس بہروپیٔے کے بارے میں نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں : ((لَیْسُوْا بِشَیئٍ)) کہ’’ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ اور ہمارے احباب کہیں کہ نہیں جی! وہ تو بڑے پتے کی اور ٹھیک ٹھیک باتیں اس طرح بتاتے ہیں کہ ہتھیلی پر سرسوں جمادیتے ہیں ۔ وہ غیب کی خبریں جانتے اور بڑے پہنچے ہوئے
Flag Counter