Maktaba Wahhabi

66 - 103
دھوکہ کھانا چاہیئے کہ ان کے پاس تو پڑھے لکھے لوگ بھی آتے ہیں ، کیونکہ ان کے پاس آنے والے لوگ اہلِ علم نہیں بلکہ جاہل ہی ہوتے ہیں ۔ اگر ان کے پاس علم کی دولت ہوتی تو وہ خلافِ شریعت امو رکا ارتکاب ہر گز نہ کر تے۔ اور نہ ہی دن رات مشرکانہ تعویذ گنڈوں کے چکّر میں مصروف رہتے۔[1] اُن کا ایک سچ کے ساتھ سَو جھوٹ ملانا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ٔ مبارک میں کاہن اور نجومی بکثرت موجود تھے اور جو سوال آج کیا جاتا ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی بات درست کیوں نکل آتی ہے؟ یہی سوال اُس عہدِ مسعود میں بھی پیش آیا تھااور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ صدق ترجمان سے اس کا کافی و شافی جواب بھی صادر ہوا۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم شریف میں ہے: ((إِنَّ نَاساً سَأَلُوا النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الْکَاھِنِ (أَوْ الْکُھَّانِ) فَقَالَ:لَیْسُوْا بِشَیْئٍ، فَقَالُوْایَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّھُمْ یُحَدِّثُوْنَ أَحْیَاناً بِشَیٍٔ (أَوْ بِالشَّیْئِ ) فَیَکُوْنُ حَقّاً، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم تِلْکَ الْکَلِمَۃُ مِنَ الْوَحْیِ، یَحْفَظُھَا الْجِنِّیُّ فَیُقِرُّھَا، أَیْ یُلْقِیْھَا فِیْ اُذُنِ وَلِیِّہٖ فَیُخْلِطُ مَعَھَا مِائَۃُ کِذْبَۃٍ۔)) ’’ کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہن یا کاہنوں کے بارے میں پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہو تا‘‘ ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ لوگ بعض دفعہ کوئی بات کہتے ہیں تو وہ درست نکل آتی ہے(آخر اس کی کیا وجہ ہے؟)رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وحیِ الٰہی میں سے جِنّ کسی کلمہ کو سن لیتا ہے اور اسے آکر اپنے دوست انسان(یعنی کاہن ) کے کان میں ڈال دیتا ہے ۔ پس وہ کاہن اس ایک لفظ کے ساتھ سو جھوٹ ملالیتا (اور لوگوں کو سناتا پھرتا) ہے۔[2]
Flag Counter