Maktaba Wahhabi

39 - 103
علامت بنا دی گئی ہے ، کوئی کہتا ہے ، کیا کہیں جی! آج تو سارا دن ہی برباد ہوگیا ہے کیونکہ صبح گھر سے نکلتے ہی فلاں شخص سے سامنا ہوگیا تھا ۔ کوئی ماہ ِ صفر کو منحوس سمجھتا ہے ،کچھ منگل وار کو شمال کی طر ف سفر کرنا ناکامی کی نشانی سمجھتے ہیں ۔یہ تمام خیالات و نظریات زمانۂ جاہلیت کی یادگاریں ہیں ،جوں جوں عقیدئہ توحید پر سے ہماری گرفت ڈھیلی ہوتی جارہی ہے ،ایمان کمزور ہورہا ہے اور ہم پر ضعیف الاعتقادی غالب آرہی ہے اور یہ جاہلانہ تصوّر جنم لے رہے ہیں نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت و نبوّت سے قبل عرب بھی اس قسم کی بدشگونی یا بدفالی لینے کا عقیدہ رکھتے تھے ، بیماری میں چُھوت چھات کے قائل تھے ،پرندہ اُڑا کر فال نکالا کرتے تھے ،اور اگر وہ دائیں جانب اُڑ گیا تو سمجھ لیتے کہ ہم جس کام پر روانہ ہورہے ہیں وہ ہوجائے گا ۔اور اگر وہ پرندہ بائیں جانب اُڑ جاتا تو کام نہ ہونے کا یقین کرکے اُس دن وہ گھر میں ہی بیٹھ جاتے تھے ۔اُلّو کی آواز سے بدشگونی لیتے تھے ،ماہ ِ صَفر اور چہار شنبہ[ بُدھ وار] کو منحوس سمجھتے تھے ۔ماہ ِ شوال میں شادی بیاہ کو اچھا نہیں جانتے تھے ۔ہواؤں کے چلنے ، موسم بدلنے اور بارش ہونے کو ستاروں کی تاثیر قرار دیتے تھے ۔ صحیح بخاری و مسلم میں ہے، حضرت زید بن خالد جُہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے مقام پر ایک رات بارش ہوئی، صبح کی نماز پڑھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ((أَتَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُم)) ’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا :((اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ)) ’’اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ‘‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ((أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِيْ مُؤْمِنٌ بِيْ وَکَافِرٌ))
Flag Counter