Maktaba Wahhabi

38 - 103
شخصیّت کو کاروبار ِ جہان کے انتظام اور بنی آدم کے امور کی تدبیر میں کوئی دخل حاصل نہیں ۔اور اللہ کے سو ا کسی کو یہ اختیار بھی نہیں کہ وہ کسی کی قسمت بگاڑے یا سنوارے ،کسی کا کام روک دے اور کسی کا ہونے دے ۔نفع و نقصان پہنچانا صرف مالک ِ ارض و سماء ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس قسم کے تمام شکوک و شبہات کا ازالہ خود اللہ تعالیٰ نے سورۃ یونس آیت : ۴۹ میں فرمادیا ہے ، اور اپنے اشرف الخَلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوادیا ہے : { قُلْ لَّا أَمْلِکُ لِنَفْسِيْ ضَرّاً وَّلَا نَفْعاً اِلَّا مَا شَآئَ اللَّہُ} ’’اے میرے نبی !لوگوں سے کہہ دیں کہ میں تو خود اپنے نفع و نقصان کا بھی کوئی اختیار نہیں رکھتا ،سوائے اُس کے جو اللہ چاہے ۔‘‘ اور اسی سورۂ یونس کی آیت : ۱۰۷ میں ارشاد ِ الٰہی ہے : { وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗ اِلَّا ہُوَ وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ} ’’اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچادے تو اُسی کے سوا اُس تکلیف کو دور کرنے والا کوئی نہیں ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی بھلائی عطا کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے فضل کو نہیں روک سکتی ۔‘‘ اِن قرآنی آیات کی رو سے جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کے نفع و نقصان کا مالک نہیں اور نہ ہی کوئی کسی کی قسمت سنوار سکتا ہے اور نہ بگاڑ سکتا ہے، تو پھر معلوم نہیں کیا وجہ ہے کہ آج بے شمار لوگ عجیب و غریب خیالات کا اظہار کرتے پھرتے ہیں ؟ کوئی سمجھتا ہے کہ بِلّی راستہ کاٹ گئی ہے اور میں جس کام کے لیٔے جارہا تھا وہ اب نہیں ہوسکے گا ۔کوئی گھر سے کسی کام کے لیٔے روانہ ہوا ، اور پیچھے سے کوئی آواز دے دے تو جانے والا وہیں ہتھیار پھینک دیتا ہے کہ بس اب جانا فضول ہے ،میرا کا م نہیں ہوپائے گا ۔ کسی کو روانگی کے وقت چھینک آگئی ہے جو نحوست کی
Flag Counter