Maktaba Wahhabi

72 - 103
عملِ صالح کی دوسری شرط : اخلاص لِلّٰہ یا عدمِ ریاء کاری اخلاص لِلّٰہ یا عدمِ ریاء کاری ؛ قرآن ِ کریم کی نظر میں : کسی بھی نیک عمل کے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہونے کی تین شرطوں میں سے دوسری شرط ’’اخلاص للہ ‘‘ یا’’ عدمِ ریاء کاری‘‘ ہے، چنانچہ ہم جو بھی نیک کام یا عبادت کریں وہ صرف رضائے الٰہی کے حصو ل کے لیٔے ہو ، کسی دوسرے کی خوشنودی ہرگز مطلوب نہ ہو ،اور نہ ہی اُس کار ِ خیر میں یہ جذبہ کار فرماہو کہ اگر میں یہ کام کروں گا تو لوگ مجھے بڑا پرہیز گار اور عابد و زاہد سمجھیں گے ،مجھے بڑا متقی و رحم دل ، غریب پَرور اور سخی کہیں گے، مجھے بڑا عالم و فاضل اور خوش الحان قاری مانیں گے یا مجھے بڑا شیر دل اور بہادر و شجاع قرار دیا جائے گا ۔ اپنے عمل کے بارے میں دنیا والوں سے یہ تمنّا ئیں ہرگز نہ کی جائیں بلکہ ہر عمل عِند اللہ مقبول تبھی ہوتا ہے جب پورے اخلاصِ نیّت کے ساتھ اُسے اللہ تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی کے لیٔے سر انجام دیا جائے ۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے کتنے ہی مقامات پر ہماری راہنمائی فرمائی ہے ، چنانچہ سورۂ نساء کی آیت : ۱۴۶ میں منافقین کا انجام ِ بد بیان کرنے کے بعد فرمایا : {اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَأَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَأَخْلَصُوْا دِیْنَہُمْ لِلّٰہِ فَأُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَسَوْفَ یُؤْتِي اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ أَجْراً عَظِیْماً علیہم السلام } ’’ البتہ جو اُن میں سے تائب ہوجائیں اور اپنے طرز ِ عمل کی اصلاح کرلیں اور اللہ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیٔے خالص کردیں ،ایسے لوگ مؤمنوں کے ساتھ ہیں ،اور اللہ مؤمنوں کو اجر ِ عظیم عطا فرمائے گا ۔‘‘ اور سورۂ اعراف کی آیت :۲۹ میں اخلاص فی العمل کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : {وَأَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ}
Flag Counter