Maktaba Wahhabi

100 - 103
یہاں ایک بات بطورِ خاص ذہن نشین رہے کہ شرعاً صرف وہ کام بدعت کہلاتا ہے جو : 1نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک کے بعد نیا ایجاد کیا گیا ہو اور سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی کوئی نظیر نہ ہو ۔ 2وہ کام دین میں داخل سمجھا جاتا ہو اور اسے باعثِ اجر و ثواب اور ذریعۂ تقرّب بھی مانا جائے ۔ البتہ وہ کام جو نیا تو ضرور ہے مگر جزوِدین شمار نہیں کیا جاتا، اُسے ’’بدعت‘‘ نہیں کہا جا ئے گا ۔ اس طرح مختلف قسم کی تمام مفید و مباح ایجادات بدعت کی تعریف سے خارج ہو جا تی ہیں جو اگرچہ عہدِ نبوّت کے بہت بعد وجود میں آئیں مگر انہیں کارِ ثواب ، باعثِ تقرّب الیٰ اللہ اور دین کا جزء تو کسی نے قرار نہیں دیا ، مثلاً بس ، کار ، موٹر سائیکل کی سواری کرنا، آذان و جماعت اور خطبہ کے لیٔے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ، روشنی کے لیٔے ٹیوب یا بلب کا استعمال ، عینک لگانا، گھڑی باندھنا وغیرہ امور بدعت کے ضمن میں نہیں آتے، بدعت صرف وہی کام ہو تا ہے جونیا بھی ہو اور جسے دین کا جزء یا باعثِ ثواب بھی سمجھا جائے۔ بدعت کی مذمت ؛ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں : ان بدعات کا وجود میں آنا در اصل تو طلبِ ثواب کے لیٔے ہی ہو تا ہے، مگر ہمارے سادہ دل بھائی یہ نہیں سمجھتے کہ اُن کے اس فعل سے انہیں ثواب تو کیاسخت گناہ ہوگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطانِ لعین نے ثوابِ دارین کا چکر دے کر کچھ لوگوں کو بدعات کی ترویج واشاعت پر لگا رکھا ہے اور حالات ہمارے سامنے ہیں کہ ان خرافات کا جال امبربیل کے تاروں کی طرح پھیلتا ہی جا رہا ہے اور جس طرح امبربیل درخت کو کھاجا تی ہے، ایسے ہی بدعات و خرافات کی دبیز تہوں میں سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی دھندلا رہی ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ہر وہ کام جس کا زمانہ ٔ رسالت میں بھی موقع آیا اور جس کے سر انجام دینے سے کوئی مجبوری مانع بھی نہ تھی، اس کے باوجود اس زمانۂ مسعود میں نہیں کیا گیا، اُسے آج کیا جا رہا ہو اور فخر یہ کیا جا رہا ہو تو ایسے کام میں خیر کہاں سے آئے گی؟ جبکہ دینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کوئی
Flag Counter