Maktaba Wahhabi

74 - 103
’’ اے نبی ! ان سے کہہ دیں : کیا تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہ ہمارابھی رب ہے اور تمہارا بھی ، ہمارے اعمال ہمارے لیٔے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیٔے اور ہم اللہ ہی کے لیٔے اپنی بندگی کو خالص کرچکے ہیں ‘‘ ۔ عمل میں اخلاص لِلّٰہ کا اتنا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں پر شیطان کا بھی کوئی بس نہیں چلتا جیسا کہ خود اُس نے اعتراف کیا ہے۔قرآن پاک اٹھاکر دیکھیں ،سورۂ حجر کی آیت: ۴۰ ،اور سورۂ ص ٓ کی آیت: ۸۲۔۸۳ میں اللہ تعالیٰ نے اس [شیطان ] کا اعتراف ذکر فرمایا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے جُرم کی پاداش میں شیطان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دھتکارا گیا تو اس نے اللہ تعالیٰ کی عزّت و جلالت کی قسم کھا کر کہاتھا : {لَا ُٔغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِیْنَ علیہم السلام اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ علیہم السلام } ’’ میں ان سب [بنی آدم ] کو بہکا کر رہوں گا ، سوائے تیرے اُن بندوں کے جنہیں تونے خالص کرلیاہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے خالص بندے صرف وہی ہوتے ہیں جن کی ساری زندگی ہی پیکر ِ اخلاص ہو ، ان کے اعمال میں شِرک ،دکھلاوا اور ریاء کاری کا شائبہ تک نہ ہو ۔ اخلاصِ عمل کی فضیلت و برکت ؛ حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں : اخلاصِ عمل کی فضیلت و برکت کے سلسلہ میں نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبا ن ِمبارک سے نکلے ہوئے ارشادات کُتب ِ حدیث میں بکثرت موجود ہیں اور ان میں سے ہم صرف دوایک حدیث آپ کے سامنے بیان کرنے پراکتفاء کررہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خالص رضائے الٰہی کے لیٔے کیٔے گئے اعمال کا اجر و ثواب جہاں آخرت میں ملے گا، وہیں ان کا پھل کسی نہ کسی رنگ میں انسان اس دنیا میں بھی پالیتا ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور نسائی و ابن حبانمیں نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
Flag Counter