Maktaba Wahhabi

149 - 303
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پندرھویں شعبان کی رات اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پرنزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت میں شعبان کی پندرھویں شب کو قبرستان جانے کا تذکرہ مل گیا اور ہم نے اس کو بنیاد بنا کر اس شب قبرستان جانا ایک طرح سے ضروری اور فرض قرار دیا اور اس پر بڑی پابندی سے عمل پیرا ہوگئے۔لیکن اس موقع پر چند باتیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ہیں: ۱- اس روایت میں ضعف ہے، جس کی طرف محدثین وائمہ عظام نے توجہ دلائی ہے، یہاں پر ہم صرف ایک مشہور حنفی عالم مولانا محمدیوسف بنوری -صاحب معارف السنن- کی تحقیق پیش کرتے ہیں، مولانا نے لکھا ہے: ’’حدیث باب صحت کے درجہ کو نہیں پہنچتی ، اس لیے کہ اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ ہے۔اس کی سند میں دو جگہوں پر انقطاع ہے، جن کو امام ترمذی نے بیان کیا ہے۔البتہ ابن معین نے یحییٰ کے لیے عروہ سے سماع ثابت قرار دیا ہے، اور کسی چیز کو ثابت کرنیوالا انکار کرنے والے پر مقدم ہوتا ہے، لہٰذا اب صرف ایک جگہ انقطاع رہ گیا، یہ بات علامہ عینی نے العمدۃ میں کہی ہے۔‘‘ (معارف السنن:۵؍۴۲۰-۴۲۱۔بحوالہ:ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، شمارہ نومبر ۲۰۰۰ء؁) موصوف نے مزید لکھا ہے: ’’اس شب کی فضیلت میں بہترین حدیث یہی حضرت عائشہ کی ہوسکتی ہے اس کو ابن شیبہ،بیہقی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے، تاہم یہ حدیث منقطع ہے۔شب برات کی فضیلت میں کوئی مسند، مرفوع، صحیح حدیث میری واقفیت میں نہیں ہے۔‘‘(ایضا:۵؍۴۱۹) اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ حدیث صحیح سند سے مروی ہے تب بھی بہت سارے
Flag Counter