Maktaba Wahhabi

174 - 303
چنانچہ سعید بن عبد العزیزکی جماعت فوت ہوجاتی تو رونے لگتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱؍۲۱۹) ابواللیث طرسوسی کی ایک مرتبہ تعزیت کی جارہی تھی، معلوم کرنے پرپتہ چلا کہ ان کی نماز باجماعت فوت ہوگئی تھی اسی پر لوگ انہیں تسلی دے رہے تھے۔(تاریخ واسط:۱۷۴) حاتم الاصم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری نماز باجماعت فوت ہوگئی تو صرف ابواسحاق بخاری نے میری تعزیت کی، اگر میرا کوئی لڑکا فوت ہوجاتا تو دسیوں ہزار لوگ میری تعزیت کرتے ، کیوں کہ لوگوں کے نزدیک دین کی مصیبت دنیا کی مصیبت کے مقابلے ہلکی اور معمولی ہے۔(الاحیاء:۱؍۱۷۷) امام شافعی کے مشہور شاگرد امام مزنی کے بارے میں آتاہے کہ اگر کبھی ان کی جماعت چھوٹ جاتی تو اس نماز کو ۲۵؍بار پڑھتے۔(کیوں کہ باجماعت نماز کا ثواب تنہا نماز کے مقابلے ۲۵؍گنا زیادہ بتایا گیا ہے)(السیر:۱۲؍۴۹۲) حضرت اسود کی نماز کی جماعت اگر چھوٹ جاتی تو دوسری مسجد کا رخ کرتے تاکہ وہاں کی جماعت میں شریک ہوسکیں۔ (فتح الباری:۲؍۱۳۱) ضمام بن اسماعیل ایک مرتبہ مسجد میں آئے اور دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوچکے ہیں ، ان کو اس کا اس قدر غم ہوا کہ انہوں نے اسی وقت یہ طے کرلیا کہ اب وہ مسجد سے نکلیں گے ہی نہیں تاآنکہ ان کی اللہ سے ملاقات ہوجائے، یعنی موت آجائے، چنانچہ مسجد ہی کو اپنا گھر بنارکھا یہاں تک کہ انہیں وہیں موت آئی۔(العلل للإمام احمد:۵۰۳۳) قاضی سلیمان بن حمزہ مقدسی فرماتے ہیں:میں نے دو مرتبہ کے علاوہ کبھی فرض نماز تنہا نہیں پڑھی، اور دونوں مرتبہ ایسا لگا کہ میں نے نماز پڑھا ہی نہیں، اس وقت ان کی عمر(۹۰)کے قریب تھی۔ یونس بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ میری مرغی گم ہوجائے تو میں اس پر غم کروں اور میری جماعت چھوٹ جائے تو اس پر غم نہ کروں۔
Flag Counter