Maktaba Wahhabi

200 - 303
چلے گا کہ کسی بھی برائی کا چلن اس وقت ہوتا ہے جب دیکھنے والے اسے دیکھ کر خاموشی اختیار کرلیں، اس پر کسی طرح کی نکیر نہ کریں اور نہ اس کے ازالے کی کوشش کریں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ برائی برے لوگوں تک محدود نہ رہ کر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اچھے برے سب اس کا شکار بنتے ہیں ، اور جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تو شکایتیں کرنا اور کف افسوس ملنا کچھ کام نہیں آتا، بلکہ ایسے معاشرے کو قدرتی انجام بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ اصلاح کے عمل سے چشم پوشی یا غفلت ایک بہت بڑا جرم ہے جس پر ہماری شریعت نے بڑا سخت موقف اختیار کیا ہے، اور مختلف طریقوں سے اس عمل کی قباحت کو واضح کیا ہے۔ چنانچہ شریعت اسلامیہ نے برائیوں کو نظر انداز کرنے اوران کی روک تھام کی کوشش نہ کرنے پر اللہ کے اجتماعی عذاب اور ہلاکت کی وعید سنائی ہے اور یہ واضح کردیاہے کہ آدمی کا اپنا تقویٰ اور صلاح اگر دوسروں کی اصلاح وہدایت پر اسے نہ ابھارے تو یہ اس کے لیے موجب ہلاکت بن سکتا ہے۔ بخاری ومسلم کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ’’اَنَہْلِکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ؟‘‘ کیا نیک لوگوں کی موجودگی کے باوجود ہمیں ہلاکت سے دوچار کیا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں، جب برائیاں بڑھ جائیں گی تو ایسا ہوگا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب برائی اور معصیت عام ہوجاتی ہے تو بعض نیک لوگوں کی موجودگی کے باوجود اس قوم کو ہلاک کردیا جاتا ہے، البتہ نیک لوگوں نے اگر احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا ہوگا تو قیامت کے دن یہ برائی کا ارتکاب کرنے والوں سے الگ ہوں گے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگو!تم یہ آیت پڑھتے ہو:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا عَلَیْْکُمْ أَنفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْْتُمْ﴾(سورہ مائدہ:۱۰۵﴾یعنی ’’اے ایمان والو!تم اپنے آپ کو لازم پکڑو، جب تم ہدایت پر ہو تو گمراہ
Flag Counter