Maktaba Wahhabi

24 - 303
ان تمام ترغیبات وتاکیدات کا تعلق ابتداء ً علم دین ہی سے ہے، دین کا علم ہی وہ علم ہے جومخلوق کو اس کے خالق سے متعارف کراتا ہے، اس دنیا میں اس کے وجود کے مقصد کی وضاحت کرتا ہے اور اس کو روحانیت اور معنویت سے مالا مال کرتا ہے، ایسا علم اسلامی فرائض میں داخل ہے۔ارشاد باری ہے: ﴿وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ﴾(سورہ توبہ:۱۲۲)یعنی مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں، سو ایسا کیوں نہ ہوکہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کے پاس جب آئیں تو انہیں ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَیْراً یُفَقّـِہْـہُ فِي الدِّیْنِ‘‘(بخاری،مسلم)اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘(صحیح الجامع:۳۹۱۳)کہہ کر ہر مسلمان پر علم کے حصول کو اس کے فرائض میں داخل قرار دیا ہے، ظاہر بات ہے کہ علم دین ہی ہر مسلمان پر بحیثیت مسلمان فرض ہے، کیوں کہ وہ جس دین کا حامل ہے اس دین کے مبادیات ، اس کے اغراض ومقاصد اور اس کی تعلیمات وہدایات سے واقف رہے بغیر اس دین کی طرف انتساب کا کوئی معنی نہیں، اور یہ فقہی قاعدہ بھی ہے کہ ’’مَالَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ إلَّا بِہٖ فَہُوَ وَاجِبٌ‘‘ یعنی جس طرح عبادات واحکام فرض ہیں اسی طرح جس علم کے ذریعہ ان عبادات واحکام کی ادائیگی وغیرہ کے طریقے معلوم ہوتے ہیں وہ بھی ان عبادات ہی کی طرح فرض ہیں۔اب علم دین کی اہمیت، ضرورت بلکہ فرضیت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے۔ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ علم دین زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے، عقائد سے لے کر عبادات تک، اور اخلاق سے لے کر معاملات تک ہر میدان میں اس کی رہنمائی موجود ہے،
Flag Counter