Maktaba Wahhabi

72 - 90
((خُذْ بِالْحَسَنِ،وَ دَعِ الْقَبِیْحَ))[1] ’’اچھے اشعار لے لو اور بُرے اشعار کو چھوڑ دو۔‘‘ معلوم ہوا کہ سازو موسیقی کے بغیر اور گانے کو پیشہ بنائے بغیر اگر کوئی صاف ستھرے الفاظ گا گُنگنا لیتا ہے،خصوصاً اگر وہ اشعار ذکرِ موت و فکرِ آخرت اور شوق و حُبِّ و طن و غیرہ کے بارے میں ہوں یا سفر و غیرہ کی مشقّت کم کرنے کیلئے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ اس کے جواز کا پتہ ذکر کردہ احادیث و آثار اور بعض دیگر آثار سے بھی پتہ چلتا ہے۔اور ان آثار کو امام بیہقی نے اپنی سنن کبریٰ(۱۰؍۲۲۳۔۲۲۴)میں اس عنوان کے تحت ذکر کیا ہے: ’’ آدمی[بلا ساز]گانے کو نہ تو پیشہ بنائے،نہ لوگوں کے پاس جا جاکر سنائے،نہ لوگ سننے کیلئے اس کے پاس جمع ہوں بلکہ محض کبھی کبھی وہ ترنّم سے گنگنالے۔‘‘[2] اور جن اشعار کو ترنّم سے گُنگنانے یا گانے کے جواز کا کہا گیا ہے،اُن میں سے امام ابن الجوزی[3]کے بقول بعض اقسام درجِ ذیل ہیں: 1۔ حُجَّاجِ کرام کے وہ اشعار جنہیں وہ طویل سفر کے دوران گاتے تھے اور وہ صرف کعبہ شریف،آبِ زمزم اور مقامِ ابراہیم علیہ السلام جیسے مشاعرِ مقدّسہ کی تعریف میں ہوتے تھے،ان کا گانا اور سننا مباح ہے کیونکہ وہ حدِّ اعتدال سے نہیں نکلتے اور نہ گانے یا سننے والے کو نکالتے ہیں۔ 2۔ ایسے ہی غازیوں اور مجاہدین کیلئے پڑھے جانے والے قومی و جنگی ترانے،رزمیہ اشعار اور جہادی نظمیں بھی ہیں جن میں لوگوں کو جہاد کی ترغیب دلائی گئی ہو۔ 3۔ اِسی طرح ہی عین میدانِ جہاد و قتال میں مجاہدین کا اپنے سامنے والے کے مقابلے پر اپنے آپ کو تیار کرنے کیلئے بہادری دکھلانے پر ابھارنے والے شعر کہنا بھی ہے۔
Flag Counter