Maktaba Wahhabi

137 - 153
ایسی بات ثابت ہو جو اسلام کے خلاف ہو تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اس آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسلام ظاہر کرنے یا کلمہ شہادت کا اقرار کرنے کے بعد آدمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ اگر یہی مطلب ہوتا تو اس آیت میں تحقیق کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا کوئی معنی ہی نہیں رہ جاتا۔ ……………… شرح ………………… مشرکین اسامہ رضی اللہ عنہ کے واقعے سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا وہ اگرچہ پہلے مشرک تھا لیکن اب وہ مسلمان ہو گیا ہے، اسامہ نے اگر اسے قتل کیا تو وجہ یہ تھی کہ اس نے صرف قتل کے ڈر سے یہ بات کہی۔ لیکن اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں کہ ہر لا الہ الا اللہ کہنے والا مسلمان ہے اور اس کے خون کی حفاظت کی جائے گی۔ اس میں دلیل تو یہ ہے کہ جو شخص لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لے اس سے ہاتھ روک لیا جائے گا اور اس کے مختلف حالات دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا یہ واقعی مسلمان ہے یا در حقیقت کافرو مشرک ہی ہے، فرمان باری تعالیٰ: ﴿یاٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ﴾(النساء:94) ’’اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں چلو تو تحقیق کر لیا کرو۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس موقع پر ہر قسم کے فیصلے میں یہ حکم دیا کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کرو۔ یہ آیت دلیل ہے کہ اس شخص کی حالتِ اسلام یا حالتِ کفر واضح ہو جائے تو پھر اس کے قتل یا زندہ رہنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ اس شخص کو بالکل قتل نہیں کیا جاسکتا تو پھر تحقیق بے معنی ہے۔ بہر حال اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ایسی کوئی دلیل یا گنجائش نہیں، کہ ہر لا الہ الا اللہ کہنے والا شخص مسلمان ہے،جب کہ وہ پہلے بتوں کا پجاری، قبروں کا پجاری، فرشتوں یا جنوں کی عبادت کرنے والا تھا اب وہ صرف اتنا جملہ کہنے سے خالص مسلمان ہو گیا ہے۔
Flag Counter