فرد خواہ وہ یہودی ہو یاعیسائی مجھ پر اور میرے لائے ہوئے دین پر ایمان لائے بغیر فوت ہوجائے تو وہ جہنمی ہے۔‘‘[1] اہل علم کے اقوال مغنی میں فرماتے ہیں:’’اگر کوئی احکامات اسلام سے ناواقف ہے جیسے نو مسلم،یا مسلمانوں کی سر زمین پر نوآباد شخص،یا دور دراز کے دیہاتی جو بالعموم اہلِ علم حضرات سے محروم ہوتے ہیں تو ایسے شخص پر کفر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔‘‘(8/131) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے پاس بیٹھنے والے میری اس عادت کے گواہ ہیں کہ میں سب سے زیادہ اس بات سے روکتا ہوں کہ کسی متعین شخص کو اس کا نام لے کر کافر،فاسق یا گناہ گار کہا جائے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی شخص پر ایسی حجت قائم ہو جائے جس کی بنا پر وہ کافر ہوتا ہے یا اس کو فاسق کہا جا سکتا ہے یا کسی دوسری صورت میں اس کو گناہ گار کہا جا سکتا ہے تو یہ الگ بات ہے،ایسے آدمی پر اس کے مطابق ہی حکم لگایا جائے گا۔ میرا یہ مؤقف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی تمام غلطیاں اور گناہ معاف فرما دیے ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ معافی انسان کو زبانی اور عملی غلطیوں کے متعلق دی گئی ہے۔ سلف صالحین کا ہمیشہ سے یہ طریقہ تھا کہ وہ اس قسم کے مسائل میں کسی بھی شخص کا نام لے کر اسے کافر کہتے نہ گناہ گار اور نہ فاسق کہتے تھے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’سلف صالحین جو کسی کو کافر یا فاسق کہتے تھے وہ مطلق ہوتا تھا اور وہ درست ہے۔ کسی شخص کو متعین کرکے یا کسی عمل کے مرتکب کو کافر کہنا ان میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ‘‘ نیز فرماتے ہیں کہ کسی کو کافر، فاسق کہنا یہ وعید کے ضمن میں آتا ہے،ہو سکتا ہے کہنے والا |