Maktaba Wahhabi

82 - 153
وجاوبہ بما تقدم وہو: أن الذین قاتلہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم مقرون بما ذکرت، ومقرون بأن أوثانہم لا تدبر شیئًا، وانما أرادوا الجاہ والشفاعۃ، واقرأ علیہ ما ذکر اللّٰہ فی کتابہ ووضحہ۔ فان قال ہؤلائ: الآیات نزلت فیمن یعبد الاصنام، کیف تجعلون الصالحین مثل الأصنام؟ أم کیف تجعلون الأنبیاء اصنامًا؟ فجاوبہ بما تقدم۔ مفصل جواب یہ ہے کہ اللہ کے دشمنوں کو انبیاء علیہما السلام کے دین پر بے شمار اعتراضات ہیں جن کے ذریعے وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے بلکہ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ خالق و رازق اور نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں، چہ جائیکہ عبدالقادر یا دوسرے بزرگ ہوں۔ لیکن چونکہ ہم گناہ گار ہیں اور بزرگوں کا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقام و مرتبہ ہے، اس لیے ان کے واسطے سے ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں۔ اس دلیل کا آپ یہ جواب دیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں سے قتال کیا وہ بھی ان باتوں کا اقرار کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ ان کے پاس نفع و نقصان کا اختیار تو نہیں لیکن ہم ان کے واسطے سے جاہ ومرتبہ اور شفاعت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی آپ انہیں قرآن کی بات پڑھ کر سنائیں اور ان کی وضاحت کریں۔ اس پر اگر وہ اعتراض کریں کہ یہ بات تو ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ آپ انبیاء و صالحین کو بتوں جیسا کیوں بناتے ہیں ؟ تو آپ اس اعتراض کا بھی وہی جواب دیں جو پہلے گزر چکا ہے، کیونکہ جب انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ کفار اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرتے تھے اور اللہ کے علاوہ جن صلحاء و ملائکہ کا وہ قصد کرتے تھے، ان سے صرف شفاعت کی امید رکھتے تھے۔ اس کے باوجود ان کو مشرک قرار دیا گیا۔
Flag Counter