ہمارے لئے مباح قرار دیاگیاہے،اور وہ کافر جو ہمارے ملک میں رہائش پذیر ہیں،جنہیں معاہد یاذمی کہاجاتاہے،ان کے اموال یا جان ہمارے لئے قطعاً مباح نہیں ہے،اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:(من قتل معاہدا لم یرح رائحۃ الجنۃ)یعنی:جو شخص کسی معاہد کافر کو قتل کردے وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکےگا۔[1] شیخ صالح بن عثیمین رحمہ اللہ اس پر مزید اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ثابت ہوا کہ جو لوگ کفار کے اموال پر زیادتی کرتےہیں،خواہ وہ کفار ان کے ملک میں معاہد کے طور پر رہتے ہوں،یا وہ خود کفار کے ملک میں رہائش پذیر ہوں،ایسے لوگ بڑے ظلم کے مرتکب ہیں، بلکہ اسے گمراہی قرار دیا جائےگا،کچھ نوجوان جو بلادِ کفار میں سکونت پذیر ہیں یہ بات کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیںکہ کفار کے اموال تلف کرنے میں کوئی حرج نہیں،چنانچہ وہ ان کی سڑکوں کی روشنیوں یا کاروباری مراکز یا گاڑیوں وغیرہ پر ظلم وزیادتی کرتے رہتے ہیں،یہ سب حرام ہے۔ایک ملک آپ کو رہنے کی جگہ دیتاہے اور آپ ان کے ممتلکات میں اس طرح فساد قائم کریں ،یہ تو ان کے سامنے اپنے اسلام کی شکل بگاڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔ مگر اصل بگاڑ اسلام کانہیں ،ان کا اپنا ہے ،لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ کفار کے اموال وممتلکات قابل احترام ہیں، خواہ وہ کفار آپ کے ملک کے رہائشی ہوں یا آپ ان کے |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |