(ألا إنی أوتیت القرآن ومثلہ معہ)[1] مگر حدیث قدسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا اس کی تشریف وتکریم کا مظہر ہے۔ اس بارہ میں علماء کی مختلف آراء ہیں کہ حدیثِ قدسی کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں،راجح قول یہی ہے کہ حدیثِ قدسی کا معنی ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ،اورالفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں۔ حدیثِ قدسی کا قرآن مجید سے یہی فرق ہے کہ قرآن مجید لفظاً ومعنیً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،جبکہ حدیثِ قدسی، معنیً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اورالفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں۔ حدیثِ قدسی کا دیگر احادیث سے فرق یہ ہے کہ عام احادیث قولاًیا فعلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں،جبکہ حدیثِ قدسی کو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے روایت فرماتے ہیں،اس نسبت میں حددرجہ کی تشریف ہے اور پوری کائنات میں یہ سب سے پاکیزہ سند ہے کہ اکرم الاولین والآخرین،اللہ تعالیٰ رب العالمین والٰہ العالمین سے براہِ راست روایت فرمارہے ہیں۔ اس لحاظ سے حدیثِ قدسی بہت زیادہ لائقِ توجہ اور متقاضیٔ اہتمام ہے، اور ممکن ہے اسی وجہ سے تابعی ابوادریس الخولانی سے اس حدیث کی روایت کا تقاضہ کیاجاتا تو وہ |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |