رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:(المؤمن القوی خیر وأحب إلی اللہ من المؤمن الضعیف )[1] یعنی: طاقتور مؤمن اللہ تعالیٰ کے نزدیک،کمزور مؤمن سے بہتر اور محبوب ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ مؤمن کے جسم کی قوت،اعمالِ صالحہ کی بناء پر پیدا ہوتی ہے۔ (۶) معصیت کا ایک بڑا وبال یہ ہے کہ اس سے مزید گناہوں کے راستے کھلتے ہیں،جبکہ اعمالِ صالحہ کے راستے بندہوجاتے ہیں۔ بعض علماءِ سلف کا قول ہے :گناہ کی سب سے بھیانک سزا یہ ہے کہ اس کے ارتکاب کے بعد کسی دوسرے گناہ کا ارتکاب عمل میں آجائے،جبکہ نیکی کا سب سےبڑا ثواب یہ ہے کہ نیکی کرلینے کے بعد کسی دوسری نیکی کی توفیق حاصل ہوجائے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: [فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى۵ۙ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى۶ۙ فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْيُسْرٰى۷ۭ وَاَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰى۸ۙ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰى۹ۙ فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰى۱۰ۭ][2] ترجمہ:جس نے دیا (اللہ کی راه میں) اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |