Maktaba Wahhabi

58 - 103
خارج ہوتا ہے ۔ اس پھونک میں خبیث روحیں اور شیاطین اس جادُو گر کی مدد کرتے ہیں اُو ر اس کے ساتھ ہی اس گِرہ میں پھونک مارتے ہیں ۔چنانچہ جس پر جادُو کرنا مقصود ہو اس پر اثر ہوجاتا ہے۔ حافظ ابن قیم ؒنے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اِذن سے اثر ہوجاتا ہے مگر اس اِذن سے مُراد اِذن ِ شرعی نہیں بلکہ یہ وہ اِذن ہے جسے اہل ِ علم کی اصطلاح میں ’’اِذن ِ کونی وقدری ‘‘ کہا جاتاہے۔[1] سابقہ حدیث میں وارد ’’کوئی چیز لٹکانے‘‘ کے بارے میں علّامہ عبد الرحمن بن حسن لکھتے ہیں : ’’جس شخص کا قلبی تعلّق کسی غیرُ اللہ سے ہوجائے ،وہ اس کو معتمد علیہ اور قابلِ بھروسہ قرار دے لے اور اس سے اپنی امیدیں وابستہ کر لے تو اللہ تعالیٰ بھی اُسے اُسی کے سُپرد کر دیتا ہے ، اس کے بر عکس جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے وہ اس کے لیٔے کافی ہو جاتا ہے ، اس کی حفاظت اپنے ذمّے لے لیتا ہے اور اسے ہر شرّ سے محفوظ رکھتا ہے اور سورۂ زمر، آیت ۳۶ میں ارشادِ الٰہی ہے : { اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ علیہم السلام } ’’کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیٔے کافی نہیں ہے ؟‘‘ [2] ایک حدیث صحیح مسلم میں ہے جس میں نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چغل خوری کو بھی جادُو اثر قرار دیا ہے ، چنانچہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((أَ لَا ھَلْ أُنَبِّئُکُمْ مَا العِضَّۃُ ؟ ھِيَ النَّمِیْمَۃُ الْقَالَۃُ بَیْنَ النَّاسِ)) ’’کیا میں تمہیں ’’عِضہ‘‘ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟( پھر خود ہی فرمایا ):وہ چغلی کھانا ہے یعنی دو شخصوں میں ایسی بات کرنا جس سے وہ آپس میں لڑائی جھگڑے پر اُتر آئیں ‘‘ ۔[3]
Flag Counter