Maktaba Wahhabi

120 - 303
آپ کے ایک شاگرد حضرت مجاہد سے پوچھا گیا کہ دو آدمی میں سے ایک نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران دونوں کی تلاوت کی جبکہ دوسرے نے صرف سورہ بقرہ پڑھی ، اور دونوں کے رکوع ، سجود اور جلوس وغیرہ کی مدت برابر رہی ، تو آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ حضرت مجاہد نے کہا جس نے صرف سورہ بقرہ پڑھی وہی بہتر ہے۔(ایضا) حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنی ایک نصیحت میں کہا ہے کہ سکون واطمینان سے قرآن پڑھا کرو اور اختتام سورہ تک پہنچنا تمہارا مقصد نہیں ہوناچاہئے۔ (مجالس شہر رمضان لابن عثیمین) یہ ضروری نہیں کہ جو لوگ عربی زبان کی جانکاری رکھتے ہیں اور قرآنی آیات کے مطالب ومعانی کو سمجھتے ہیں انہیں ہی تدبر اور تفکر اور ترتیل سے قرآن پڑھنا چاہیے بلکہ جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہوں انہیں بھی چاہیے کہ سکون واطمینان سے قرآن پڑھیں اور پڑھائیں کیونکہ قرآن کی عظمت وتوقیر کا یہی تقاضا ہے، نیز یہ کہ ایسی قراء ت جس میں حروف کٹتے ہوں یا گڈمڈ ہو تے ہوں بالاتفاق حرام ہے۔ساتھ ہی اگر رکوع وسجود وغیرہ میں بھی امام اس حد تک سرعت سے کام لیتا ہو کہ اعتدال واطمینان سے مصلیان ارکان نہیں ادا کر پاتے تو یہ ایک الگ خرابی ہے ، کیونکہ تعدیل ارکان نماز کا ایک اہم جز ہے۔ ۳ - لمبی قراء ت کی توجیہ: بعض حفاظ جو ضرورت سے زیادہ مقدار میں تراویح میں قرآن پڑھتے ہیں ان سے جب ایک پارہ یا سوا پارہ یومیہ پڑھنے کے لیے کہا جاتا ہے تو اسے قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول اتنی اور اتنی لمبی تہجد پڑھتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے پاؤں پھول جاتے تھے، وغیرہ غیرہ ، یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے مگر سیاق وسباق ، خارجی قرائن اور موقع ومحل کے تناظر میں دیکھا جائے تو دلیل فی غیر محلہ معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ ایسے حفاظ کا اصل مقصد زیادہ قرآن پڑھ کر جلد از جلد ختم کر لینا اور اپنی چھٹی لے لینا ہوتا ہے جیسا کہ عام طور سے دیکھا جاتا ہے۔حفاظ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اکثر جماعت میں کچھ ضعیف
Flag Counter