Maktaba Wahhabi

151 - 303
ان معروضات کو پیش کرنے سے ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ کسی کو قبرستان کی زیارت سے روکا جائے یا اس پر کسی طرح کا کوئی حکم لگایا جائے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ اگر واقعی ہم اس کام کو سنت سمجھ کر اور اجرو ثواب کی نیت سے کرتے ہیں تو ان حدود وقیود کا ضرور التزام کریں اور اپنی طرف سے کسی بھی طرح کی من مانی سے پر ہیز کریں۔یہ میرا ذاتی مشورہ یا گذارش ہر گز نہیں ہے بلکہ علمائے عظام ہی کی نصیحتوں اور ہدایتوں کا اعادہ ہے۔چنانچہ جسٹس محمد تقی عثمانی حنفی لکھتے ہیں: ’’اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے ،وہ یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے گئے تھے، اس لیے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برات میں قبرستان جائیں، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہیے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے، لہٰذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے(یعنی پندرھویں شعبان کے تعلق سے)کہ آپ شب برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لیے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا اور اس کو ضرور ی سمجھنا اور اس کو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوتی، یہ اس کو اس کے درجہ سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔لہٰذا اگر کبھی کوئی شخص اس نقطۂ نظر سے قبرستان چلا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے میں بھی آپ کی اتباع میں جارہاہوں تو ان شاء اللہ اجروثواب ملے گا، لیکن اس کے ساتھ یہ کرو کہ کبھی نہ جاؤ۔لہٰذا اہتمام اور التزام نہ کرو، پابندی نہ کرو، یہ در
Flag Counter