Maktaba Wahhabi

177 - 303
چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں، البتہ آدمی بضد ہی ہے تو ایک تہائی حصہ میں کھانا کھائے ، ایک تہائی حصہ میں پانی پیے اور ایک تہائی حصہ سانس لینے کے لیے باقی رکھے۔‘‘(احمد ، ترمذی، ابن ماجہ بسند صحیح) ایک دوسری حدیث میں بسیار خوری سے اجتناب کی گویا ایک تدبیر بتاتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ ایک آدمی کا کھانا دو آدمی کے لیے کافی ہوتا ہے اور دو آدمی کا کھانا تین کے لیے کافی ہوتا ہے۔‘‘(بخاری ومسلم) کھانے پینے میں بے احتیاطی اور مسرفانہ طرز کو شعار کفار قرار دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔‘‘(بخاری ومسلم) یہ شرعی تعلیمات ایک انسان کو کھانے پینے کے معاملے میں اعتدال اورمیانہ روی کی ترغیب دیتی ہیں ، اور پُرخوری اور بے اعتدالی سے بچنے کی تلقین کرتی ہیں، ظاہر ہے کہ اسی میں خیر کا پہلو ہوگا جب تو شریعت نے ایسی ہدایات دی ہیں ، لہذا خورد ونوش کے سلسلے میں میانہ روی کے فوائد اور بے اعتدالی کے نقصانات کی تفصیل کے لیے اطباء وماہرین کے اقوال وتجربات کی طرف رجوع کرنا مناسب ہوگا۔ اطباء وماہرین کی رائے قدیم زمانے سے لے کر آج تک کے مشاہیر اطباء ودانشوران کا اس امر پر اتفاق ہے کہ کثرت غذا متعدد امراض ومشکلات کا سبب بنتی ہے اور اس پر استمرار ومداومت بسا اوقات جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔خلیفہ ہارون رشید نے ایک مرتبہ مختلف علاقوں کے چار اطباء کو جمع کرکے کہا کہ آپ میں سے ہر شخص ایسی دوا بتائے جس میں کوئی بیماری نہ ہو ، ان میں سے تین طبیبوں نے اپنے اپنے علم وتجربے کی روشنی میں الگ الگ چیزوں کا تذکرہ کیا ، مگر چوتھے طبیب نے ان تینوں کی بیان کی ہوئی چیزوں کے مضرات کو ذکر کیا اور کہا کہ وہ دوا جس میں کوئی بیماری نہیں یہ ہے کہ تم کھانے پر اس وقت بیٹھو جب تمہیں اس کی طلب ہو، اور اس حالت میں کھانے سے فارغ ہو جاؤ جبکہ طلب باقی رہے۔
Flag Counter