Maktaba Wahhabi

194 - 303
اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ خوشی اور غصہ دونوں حالت میں مجھے حق بات ہی کہنے کی توفیق بخش۔ ایسے ہی اختلاف ہی کے وقت انسان کا یہ بھی امتحان ہو جاتا ہے کہ وہ کتنا عقلمند ہے ، کتنا وسیع القلب ہے، کتنی گہری بصیرت کا مالک ہے اور کسی مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر اس کی نظر ہوتی ہے یا نہیں ؟ کسی مختلف فیہ مسئلے میں حق بات کی وضاحت اور غلط فہمی کی اصلاح یقینا لائق اہتمام چیز ہے ، لیکن اس موقع پر شفقت اور خوش خلقی جیسے آداب کو نظر انداز کر دینا کسی طرح مناسب نہیں، اگر کسی غلطی کرنے والے پر اعتراض ونکیر سے انسان کا مقصد واقعی حق کی ترویج ، عدل وانصاف کا التزام اور اصلاح ونصیحت ہے تو اس موقع پر اس کے ساتھ حسن ظن رکھنا، عذر تلاش کرنا اور ساتھ ہی اس کے لئے دعاء مغفرت کرنا ، یہ ایسے امور ہیں جن سے اغماض نہیں کیا جانا چاہیے۔ انسانی طبیعت کی کمزوریاں مثلا غصہ میں تیزی ، تند مزاجی اور کسی معاملے میں سخت اور اٹل موقف اور اس جیسے دوسرے امور اختلاف کی حالت میں انسان کے اوپر چھائے رہتے ہیں اور اس کے سامنے اس معاملہ کو اس کے حقیقی حجم سے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ، چنانچہ وہ کبھی تو شعوری طور پر اور کبھی غیر شعوری طور پر حق کی حمایت اور اللہ واسطے غصہ کرنے جیسے انداز سے اس معاملہ کو اٹھاتا ہے ، جبکہ حقیقت حال یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی خصلت اور فطرت مخفیہ کے تقاضے پر آگے بڑھ رہا ہوتا ہے، ورنہ وہ یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ حق کی حمایت کرنے اور تحمل وبردباری میں کوئی تضاد تو نہیں،بردباری اور برداشت یہ ایسی صفتیں ہیں ، جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہیں، ایسے شخص کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ واسطے غضب کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ظلم وتعدی سے کام لیا جائے اور انکار منکر کے نام پر شرعی حدود سے تجاوز کیا جائے ، اسی واسطے اپنے نفس کو شرعی نصوص کا پابند بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش سے اسے قابو میں رکھنا ورع وتقوی کی علامت بتائی گئی ہے ، ایک حدیث میں اللہ کے رسول
Flag Counter