Maktaba Wahhabi

202 - 303
گی)اور اگر وہ ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیں(انہیں سوراخ نہ کرنے دیں)تو وہ خود بھی اور دوسرے تمام مسافر بھی بچ جائیں گے۔‘‘ (بخاری) اس حدیث کے ذریعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے لفظوں میں بتلادیا ہے کہ غلط کام ہوتا دیکھ کر آدمی اگر خاموش رہا اور اس کو روکنے کی کوشش نہ کی تو اس غلط کام کے بھیانک نتائج سے اپنے آپ کو وہ بچا نہیں سکتا، یہ تمام باتیں علماء اور سماج کے مختلف طبقات کو دعوت فکر وعمل دیتی ہیں، انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور اصلاح کے لیے فی الفوراٹھ کھڑے ہونے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ آج ایک طرف معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں کو دیکھا جا ئے اور دوسری طرف اصلاح و انسداد کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو دونوں میں بڑا تفاوت نظر آتا ہے، برائیوں کے مقابلے میں اصلاحی کوششیں یا تو صفر ہیں یاآٹے میں نمک کے برابر ہیں۔شادی بیاہ کی لامتناہی رسومات،جہیز کا چلن،دختر کشی،خواتین سے چھیڑ خوانی،عصمت دری،اغلام بازی،بے پردگی،ناپ تول میں کمی،تجارت اور لین دین میں بے ایمانی ودھوکہ دھڑی،حقوق کا غصب،غیبت،چغلخوری،اتہام بازی … غرض کہ جرائم کی ایک طویل فہرست ہے جو پورے معاشرے کو جکڑے ہوئے ہے،ان جرائم میں کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اگر معاشرے کے ذمہ دار افراد اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے اور برائیوں کے خاتمہ کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تو یہاں تک نوبت نہ پہنچتی۔ اصلاح کے طریقے: اصلاح کا عمل حساس،صبر آزما اور مشکل بھی ہے، اور اپنے اندر بہت ساری نزاکت لیے ہوئے ہے، اس لیے اگر حکمت وتدبیر کے بغیر اسے انجام دینے کی کوشش کی گئی تو اصلاح کے بجائے افساد اور سدھار کے بجائے مزید بگاڑ پیداہوسکتا ہے۔مزید یہ کہ صرف جلسوں اور تقریروں میں معاشرے کی خرابیوں کاتذکرہ کر دینا،ان میں ملوث لوگوں کو سخت سست کہہ دینا اور انہیں مستحق عذاب الہٰی قرار دے دینا کافی نہ ہوگا۔خرابیاں الگ الگ نوعیت
Flag Counter