Maktaba Wahhabi

234 - 303
رَّحِیْمٌ﴾(سورہ مائدہ:۳) ’’ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقینا اللہ تعالی معاف کر نے والا اور بہت بڑا مہربان ہے‘‘ حدود وضوابط ’’ضرورت ‘‘ ، ’’اضطرار‘‘ اور ’’مجبوری‘‘ کسے کہتے ہیں ، کن حالات میں انسان مجبور اور مضطرمانا جائے گا۔ضرورت دفع کر نے کے لیے کس مقدار میں اسے حرام شے کے تناول یا استعمال کی اجازت ہے ، قاعدہ مذکورہ پر عمل کرتے وقت ان تمام امور کومد نظر رکھنا ضروری ہے، اہل علم نے ان شرائط وقیود پر مفصل بحث کی ہے جن کا اعتبار اس سلسلے میں ضروری ہے۔یہ شرائط وحدودکچھ اس طرح ہیں: ۱- انسان فی الواقع اضطراری حالت سے دو چار ہو، نہ یہ کہ محض اس کی توقع یا وہم ہو، کسی شخص کو محض یہ اندیشہ ہو کہ اگر وہ بینک سے سودی قرض نہیں لے گا تو مشکل میں پھنس جائے گا یا یہ کہ اس کا کاروبار ٹھپ پڑ جائے گا ، اسی اندیشے کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو مجبور اور مضطر مان کر سودی قرض لے لیتا ہے، یہ عمل درست نہیں ہے ، کیونکہ جب تک آدمی حقیقۃً درجہ اضطرار کو نہ پہنچ جائے مضطر نہیں مانا جائے گا، مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ میں شراب پی رہا ہوں کیونکہ اگر میں نے شراب نہ پی تو فلاں شخص کل مجھے قتل کر دے گا، ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ ۲- آدمی کے پاس سوائے حرام کے ارتکاب کے اور کوئی وسیلہ نہ ہو جس سے وہ اپنی ’’ضرورت‘‘ پوری کرسکے، دکتور عجیل نشمی کہتے ہیں کہ بسا اوقات آدمی اپنے آپ کو مضطر قرار دینے اور حرام کو حلال ماننے میں عجلت سے کام لیتا ہے، اس کے سامنے حلال کے کتنے دروازے ہوتے ہیں جن کو اس نے کھٹکھٹایا نہیں ، وہ ایسے اشخاص سے قرض حسن لے سکتا ہے جن سے اس نے ابھی تک اس کا مطالبہ نہیں کیا نہ ان کا دروازہ کھٹکھٹایا ، یا یہ کہ اس کے پاس ایسی اشیاء ہیں جن کو استعمال میں لا کر وہ قرض سے بچ سکتا ہے، مثلاً کسی کو گاڑی کی ضرورت ہے ، حالانکہ اس کے پاس دو ، تین یا اس سے بھی زائد گاڑیاں موجود ہیں ، بسا اوقات اس کے
Flag Counter