Maktaba Wahhabi

27 - 303
طرح آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے)، مزید فرمایا:﴿وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہِ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِک﴾(سورہ عنکبوت:۴۸)(اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے)۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کے پاس آسمان سے پہلی وحی آئی اور آپ کو پڑھنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے ’’ مَا أنَا بِقَارِیٍٔ‘‘(صحیح بخاری، حدیث نمبر:۳، صحیح مسلم، حدیث نمبر:۴۰۳)(میں تو پڑھا ہوا ہی نہیں ہوں)کہہ کر اپنے عذر کا اظہار فرمایا۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ امی اور ان پڑھ افراد واقوام کسی واقعے یا تاریخ کو محفوظ رکھنے کے لیے کلی طور پر اپنی یاد داشت اور حافظہ پر بھروسہ کرتے ہیں، تحریر وکتابت سے عدم وابستگی کی بنا پر ان کا سارا دار ومدار ذہنی ودماغی قوت پر ہوتا ہے، ان کے قلوب واذہان ہی ان کی معلومات کا خزینہ اور علوم معارف کے امین ہوتے ہیں۔ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن کا نزول شروع ہوا تو ابتداء آپ حضرت جبرئیل سے وحی کے الفاظ سننے کے ساتھ ہی انہیں دہراتے اور جلدی جلدی اپنے حافظے میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتے تھے، تاآنکہ اللہ رب العزت کی جانب سے یہ اطمینان دلایا گیا کہ وحی کی حفاظت کی ذمہ داری ہماری ہے، آپ نزول وحی کے وقت اسے بغور سنا کریں ، چنانچہ سورہ قیامہ میں کہا گیا: ﴿لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ۔إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ۔فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ۔ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ﴾(سورۃ القیامۃ:۱۶-۱۹)(اے نبی!)آپ قرآن کو جلدی(یاد کرنے)کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، اس کا جمع کرنا اور(آپ کی زبان سے)پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، جب ہم اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے۔) اور سورہ طہ میں یوں تنبیہ کی گئی:
Flag Counter