Maktaba Wahhabi

28 - 303
﴿فَتَعَالَی اللّٰهُ الْمَلِکُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن یُقْضَی إِلَیْکَ وَحْیُہُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً﴾(سورہ طہ:۱۱۴) (پس اللہ عالی شان والا سچا اور حقیقی بادشاہ ہے، تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر، اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری ہو جائے ، ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار میرا علم بڑھا)۔ صحابہ کرام نے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھا ، اسے اپنے سینوں میں محفوظ کیا اور اس کے اوامر ونواہی کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دی ، صحابہ کرام کی اکثریت نے نبی سے مشافہۃً ہی قرآن سیکھا اور بعد میں آنے والی نسلوں میں سینہ بہ سینہ یہ قرآن منتقل ہوتا گیا، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ تاقیامت جاری رہے گا۔ تلقی اور مشافہہ یعنی سماع کے ذریعہ قرآن سیکھنا اور اسے اپنے سینے میں محفوظ کر لینا پھر دوسروں کو اسی طرز پر اسے سکھانا اور حفظ کرانا کتب سماویہ میں سے صرف قرآن کریم ہی کا خاصہ ہے، اور فرمان الہی:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾(سورہ حجر:۹)کا عظیم مظہر ہے ، دیگر آسمانی کتابوں کی تاریخ اور ان میں ہونے والی تحریف اور قطع وبرید سے جو لوگ واقف ہیں انہیں اس حقیقت کو سمجھنے میں ادنی تامل نہ ہوگا ، علامہ قاضی سلیمان منصور پوری علیہ الرحمۃ قرآن کی پیش گوئیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ چوتھی پیش گوئی:کہ قرآن مجید حفظ ویاد رکھا جائے گا۔ ﴿بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِیْ صُدُورِ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ﴾(سورہ عنکبوت:۴۹) یہ قرآن تو وہ روشن آیتیں ہیں جو علم والوں کے سینے میں رہتی ہیں۔ ساری کتاب کو حفظ کر لینا ایک اچھوتا خیال تھا، کیونکہ قرآن مجید سے پیشتر دنیا میں کوئی کتاب حفظ نہ کی گئی تھی ، اس لیے اس خیال کا پیدا ہونا ہی اس کے الہامی ہونے پر دلیل ہے، اس پیش گوئی کے مطابق ہر ملک ، ہر صوبہ ، ہر ضلع ، ہر شہر میں حفاظ قرآن کی کافی تعداد پائی جاتی ہے، جو اس صحت اور اتقان اور یقین واثق کے ساتھ تلاوت قرآن پاک کرتے ہیں کہ
Flag Counter