Maktaba Wahhabi

282 - 303
یعنی کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد دونوں یکجا نہیں ہوسکتے۔ علما نے حسد کی قباحت وشناعت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’الحسد دائُ الجسَد‘‘ یعنی حسد جسم کو کھا جانے والی بیماری ہے۔کیوں کہ حاسد اپنے محسود کی خوشحالی وترقی کو دیکھ کر گھٹتا رہتا ہے اور ہمیشہ مغموم ومتفکر رہتا ہے۔یہ چیز اس کے جسم اور اس کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دنیا میں سب سے پہلا گناہ جس کا ارتکاب کیا گیا وہ حسد ہی ہے۔ابلیس نے حضرت آدم کو محض حسد کی بنا پر سجدہ نہ کیا اور معصیت الٰہی کا مرتکب ٹھہرا۔ علماء نے حسد کے بہت سے اسباب و دواعی بتلائے ہیں مثلاً:عداوت ودشمنی، تکبر وخود پسندی ،جاہ ومنصب کی محبت، خباثت نفس، خیر میں دوسروں کی شرکت کا خوف، دوسروں کو اپنے ماتحت بنائے رکھنے کی خواہش، وغیرہ وغیرہ۔ حسد خاص طور سے ہم عصروں میں، ہم پیشہ لوگوں میں، ساتھیوں بھائیوں اور دوستوں میں اور پڑوسیوں وغیرہ میں زیادہ ہوتا ہے۔ ایک شخص سے کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ فلاں شخص تم سے حسد کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ اس لیے کہ وہ نسب کے اعتبار سے میرا بھائی ہے، شہر میں میرا پڑوسی ہے اور میرا ہم پیشہ ہے۔اس طرح اس نے حسد کے تقریباً تمام اہم محرکات کو گنا دیا۔ اس خطرناک مرض سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے۔اس سلسلے میں آدمی کو یہ سوچنا چاہیے کہ حسد کا دینی ودنیادی دونوں نقصان صرف حسد کرنے والے کا ہوتا ہے اور جس سے حسد کیا جاتا ہے اس کا نہ دینی نقصان ہوتا ہے نہ دنیاوی۔حاسد کا دنیاوی نقصان یہ ہے کہ وہ مستقل طور پر تکلیف اور غم وفکر میں مبتلا رہتا ہے جو اس کی جسمانی اور ذہنی بیماری کا سبب بنتا ہے۔اس کا دینی نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے وہ گناہ میں مبتلا ہوتا ہے جس کا خمیازہ اس کو آخرت میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔ادھر جس سے یہ حسد کررہا ہے اس کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ محض اس کے حسد کرنے کی وجہ سے اس کی نعمت ختم نہیں ہونے والی ہے بلکہ جب
Flag Counter