Maktaba Wahhabi

65 - 303
میں اس مسئلے پر غور وخوض ہوا، قریش کے ایک معمر شخص ابوامیہ بن مغیرہ نے یہ تجویز رکھی کہ اس اختلاف کو دور کرنے کے لیے سب لوگ اس بات پر اتفاق کریں کہ کل جو پہلا شخص اس مسجد حرام میں داخل ہوگا سب لوگ اسی کے حکم کو تسلیم کریں گے اور وہ اس سلسلے میں جو بھی فیصلہ کرے گا اسے بے چوں وچرا قبول کریں گے، تمام قبیلے والوں نے اس رائے سے اتفاق کیا، حسن اتفاق ایسا کہ سب سے پہلے مسجد حرام میں داخل ہونے والے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے، انہیں دیکھتے ہی سب کے سب بیک زبان بول اٹھے:’’ہذا الامین رَضِیْنَا، ہذا محمد‘‘ یہ امین ہیں، یہ محمد ہیں، ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو اس پورے واقع سے باخبر کیا اور آپ کو اس فیصلے سے مطلع کیا کہ اس نزاع میں آپ کو حکم مانا گیا ہے تو آپ نے فرمایا:پہلے ایک چادر لے آؤ، چادر لائے جانے پر آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر چادر پر رکھ دیا اور فرمایا:ہر قبیلے کا سردار چادر کا ایک ایک کونہ پکڑے اور سب مل کر چادر کو اوپر اٹھائیں، اس طریقے سے جب تمام قبیلے والوں نے مل کر حجر اسود کو اٹھایا اور اس مقام تک لے گئے جہاں اسے نصب ہونا تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر دیوار کے اوپر رکھ دیا پھر اس کے اوپر حسب معمول تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔ (سیرت ابن ہشام:۱؍۱۹۲-۱۹۷) دیگر واقعات کی طرح اس واقعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سماج کے اندر بلند مقام ومرتبہ تھا، آپ ہردلعزیز اور معتبر شخصیت کے مالک تھے، اعلیٰ اخلاق، امانت ودیانت، صداقت وشرافت اور عدل وانصاف جیسے اخلاق حسنہ کی بدولت ہی آپ اس مقام ومرتبے پر فائز ہوئے تھے، یہی وجہ ہے کہ قریش کے متحارب گروہوں نے آپ کو دیکھتے ہی بے ساختہ آپ کی امانت وصداقت کا نعرہ بلند کرنا شروع کردیا اور آپ کی طرف سے کوئی فیصلہ صادر ہونے سے پہلے ہی اس فیصلے پر اپنی رضامندی اور اطمینان کا اعلان کرنے لگے، کیوں کہ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق کے مالک، غیر جانبدار اور لائق اعتبار ہیں، جھوٹ، بے ایمانی، جانبداری اور ان جیسی مذموم عادات سے وہ پاک وصاف
Flag Counter