Maktaba Wahhabi

66 - 303
ہیں، وہ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ حق تلفی اور ناانصافی کے شائبہ سے بالکل پاک ہوگا، قریش کے اس موقف سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اچھے اخلاق وکردار کو ہمیشہ عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے حتی کہ بگڑے ہوئے معاشرے بھی برملا اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت قریش کا اس امر پر اتفاق کرنا کہ اس میں صرف اپنی جائز اور حلال کمائی ہی لگائیں گے، بے ایمانی اور ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کا اس میں ہرگز استعمال نہ کریں گے۔یہ اس بات پر دلیل ہے کہ اہل جاہلیت بھی حلال وحرام اور جائز وناجائز کا فطری شعور رکھتے تھے، زنا کاری، سودخوری اور ظلم وعدوان یہ تمام کی تمام ایسی قبیح اور مذموم خصلتیں ہیں جن کی قباحت اور شناعت پر پورے انسانی معاشرے کا اتفاق ہے مگر افسوس کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ان برائیوں کو سند جواز فراہم کیا جارہا ہے اور ان کو پھیلانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہیں، یہ انسانی فطرت سے سراسر بغاوت ہے اور ان شاء اللہ اسے کبھی بھی عمومی قبولیت حاصل نہ ہوگی۔ بہر حال اس واقعے میں اس طرح کی بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں پنہاں ہیں جن سے ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں روشنی حاصل کرسکتے ہیں، اس واقعے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اخلاص اور بے نفسی ہو تو ایک معمولی فرد بھی کسی جنگ کو ٹالنے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے، اس کے برعکس مصلحت پسندی، بدنیتی، منافقت اور مفاد پرستی جیسی ذہنیت کے ساتھ لاکھوں کروڑوں افراد بھی کسی ممکنہ جنگ کو رکوانے یا ٹالنے کے لیے آواز اٹھائیں تو وہ صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے۔
Flag Counter