Maktaba Wahhabi

78 - 303
مسلمانوں کے خلاف اسے ورغلا یا جائے اور اس بات پر اسے آمادہ کیا جائے کہ انہیں وہ دوبارہ مکہ واپس بھیج دے۔اس مہم کے لیے گہری سوجھ بوجھ کے مالک دو مشہور سردار عمرو بن عاص اور عبد اللہ بن ربیعہ کا انتخاب ہوا، ان دونوں کو بہترین ہدیے اور قیمتی تحفے دے کر یہ ہدایت کی گئی کہ بادشاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کے تمام بطریقوں اور وزیروں کو تحفے تحائف پیش کریں اور انہیں اپنے ان دلائل سے آگاہ کریں جن کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کو وہاں سے نکلوانا چاہتے ہیں ، پھر اس کے بعد نجاشی بادشاہ کے پاس جائیں اور اسے تحفے پیش کرنے کے بعد اپنے مقصد کی بات کریں۔لہذا ان دونوں نے ایسا ہی کیا اور حبشہ پہنچ کر پہلے وزیروں کو تحفے پیش کرکے ان کے سامنے اپنا مدعا رکھا ، جب انہوں نے اس بات سے اتفاق کر لیا کہ وہ نجاشی کو مسلمانوں کے نکال دینے کا مشورہ دیں گے تو یہ دونوں نجاشی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تحفے تحائف پیش کرکے اپنا مدعا یوں عرض کیا: ’’بادشاہ سلامت!آپ کے ملک میں ہمارے کچھ نا سمجھ نوجوان بھاگ آئے ہیں ، انہوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے، لیکن آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ ایک نیا دین ایجاد کر لیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ۔ہمیں آپ کی خدمت میں انہی کی بابت ان کے والدین، چچاؤں اور کنبے قبیلے کے عمائدین نے بھیجا ہے ، مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں ان کے پاس واپس بھیج دیں کیونکہ وہ لوگ ان پر سب سے اونچی نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی خامی اور عتاب کے اسباب کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں ‘‘ جب یہ دونوں اپنا مدعا عرض کر چکے تو بطریقوں نے کہا:بادشاہ سلامت!یہ دونوں ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں ، آپ ان جوانوں کو ان دونوں کے حوالے کر دیں ، یہ دونوں انہیں ان کی قوم اور ان کے ملک میں واپس پہنچادیں گے۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس واقعہ کی حکایت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان دونوں کو یہ بات کسی طرح گوارا نہ تھی کہ بادشاہ مسلمانوں سے اس سلسلے میں کچھ گفت وشنید بھی کرے۔مگر ہوا یہ کہ بادشاہ کو ان دونوں کی بات سن کر بڑا غصہ آیا ، اس نے کہا کہ اللہ
Flag Counter