Maktaba Wahhabi

81 - 303
سے کہا:خدا کی قسم!کل ان کے متعلق ایسی بات لاؤں گا کہ ان کی ہریالی کی جڑ کاٹ کر رکھ دوں گا۔عبد اللہ بن ربیعہ نے کہا:نہیں ، ایسا نہ کرنا ، ان لوگوں نے اگر چہ ہمارے خلاف کیا ہے لیکن ہیں بہر حال ہمارے اپنے ہی کنبے قبیلے کے لوگ ، مگر عمر و بن عاص اپنی رائے پر اڑے رہے۔ اگلا دن آیا تو عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا:اے بادشاہ!یہ لوگ عیسی بن مریم کے بارے میں ایک بڑی بات کہتے ہیں ، اس پر نجاشی نے مسلمانوں کو پھر بلابھیجا، وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں مسلمان کیا کہتے ہیں۔اس دفعہ مسلمانوں کو گھبراہٹ ہوئی ، لیکن انہوں نے طے کیا کہ سچ ہی بولیں گے نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو۔چنانچہ مسلمان نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے اور اس نے سوال کیا تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم عیسی علیہ السلام کے بارے میں وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔یعنی حضرت عیسی اللہ کے بندے ، اور اس کے رسول ، اس کی روح اور اس کا وہ کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری پاکدامن حضرت مریم علیہا السلام کی طرف القا کیا تھا۔ اس پر نجاشی نے زمین سے ایک تنکہ اٹھایا اور بولا:خدا کی قسم!جو کچھ تم نے کہا ہے حضرت عیسی علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑھ کر نہ تھے۔اس پر بطریقوں نے ’’ہو نہہ‘‘ کی آواز لگائی۔نجاشی نے کہا!اگر چہ تم لوگ ’’ ہونہہ‘‘ کہو۔اس کے بعد نجاشی نے مسلمانوں سے کہا:جاؤ تم لوگ میرے قلمرو میں امن وامان سے رہو ، جو تمہیں گالی دے گا اس پر تاوان لگا یا جائے گا۔مجھے گوارا نہیں کہ تم میں سے کسی آدمی کو ستاؤں اور اس کے بدلے مجھے سونے کا پہاڑ مل جائے۔ اس کے بعد اس نے اپنے حاشیہ نشینوں سے مخاطب ہو کر کہا:ان دونوں کو ان کے ہدیے واپس کردو، مجھے ان کی ضرورت نہیں۔قسم اللہ کی اس نے جب مجھے میرا ملک واپس کیا تھا تو مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی کہ میں اس کی راہ میں رشوت لوں۔نیز اللہ نے میرے بارے میں لوگوں کی بات قبول نہ کی تھی کہ میں اللہ کے بارے میں لوگوں کی بات مانوں۔حضرت ام سلمہ جنہوں نے اس واقعے کو بیان کیا ہے کہتی ہیں کہ اس کے بعد وہ دونوں اپنے
Flag Counter