Maktaba Wahhabi

20 - 120
ہر ایک پر واجب ہے، لیکن ان کی تقلید کے واجب ہونے کی دلیل قرآن و حدیث سے نہیں ملتی۔ قرآن و حدیث ہی دین کا ماخذ و منبع ہیں، جب یہاں سے ہم کسی بات کا ثبوت پالیں تو پھر تاویل کی گنجائش نہیں رہتی اور جب قرآن و حدیث میں ہمیں کسی بات کا ثبوت نہیں ملتا تو پھر اسے تسلیم کرنے کی گنجائش ہمارے پاس نہیں کیونکہ ہم شریعت کے تابعدار ہیں شریعت ساز نہیں۔ بعض لوگ آیتِ قرآنی: {فَاسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَo} (سورۃ النحل:۴۳، سورۃ الانبیاء:۷) ’’اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو‘‘ سے جواز نکالتے ہیں کہ اس آیت میں عوام کو علماء کی تقلید کا حکم دیا گیا ہے حالانکہ جب آیت کا سیاق و سباق دیکھتے ہیں تو وہاں بات ہی کچھ اور ہے۔ وہاں اہل الذکر سے مراد اہل کتاب یہودو نصاریٰ ہیں نہ کہ امت محمدیہ کے علماء۔ اسی طرح سورۃ النساء کی یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں : {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسْوَل وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ} ’’ اے ایمان والو! اﷲکی اطاعت کرو اور تم میں جو اولی الامر ہیں ان کی‘‘۔ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے اس سے مراد امتِ محمدیہ کے علماء ہیں لہٰذا ان چار میں سے کسی ایک امام کی تقلید واجب ہے۔ حالانکہ مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ نے ’’اولی الامر‘‘ کا ترجمہ اہلِ حکومت لکھا ہے اور یہی صحیح بھی ہے کہ اس سے مراد مسلمانوں کے خلفاء یااہلِ حکومت ہیں ، لہٰذا چار میں سے کسی ایک کی تقلید کا دعویٰ باطل ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ان آیات میں علماء بھی مراد ہیں،
Flag Counter