Maktaba Wahhabi

37 - 120
کر دیتی ہیں ۔ عاشورہ کے جلوس میں روافض کے جلوس سے آگے سنی عوام کے تعزیوں کا جلوس ہوتا ہے،اسی طرح ان کے جلوس کے پیچھے سنیوں کا ماتمی جلوس ہوتا ہے جس میں پٹہ بازی اور منہ سے آگ نکالنے اور تلوار بازی وغیرہ کے تماشے کیئے جاتے ہیں ۔کچھ سنی باقاعدہ ماتم شہداء بھی کرتے ہیں ۔ تعزیوں پر عَلم چڑھائے جاتے ہیں، ان کے نیچے سے بچوں اور بیماروں کو گزارا جاتا ہے جبکہ یہ رسم بت پرستی سے کسی طرح کم نہیں۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کربلا کا فسانہ اور شہید مظلوم کی خودساختہ داستانیں اور ان پر پانی بند ہونے کے جھوٹے قصے سنتے سناتے ہیں، وہی محرم کے مہینے میں شربت کے مٹکے اور کھچڑے کی دیگیں کھا پی کر اپنی توندیں بڑھا رہے ہیں، حالانکہ ان کے دلوں میں اگر ان بزرگوں کی محبت ہے تو انہیں بھی یہ دن بھوکے اور پیاسے رہ کر گزارنا چاہیئے تھا۔اسی طرح ان کے بیان کردہ افسانوں کے مطابق انہیں عاشورہ محرم کے دوران شادیاں بھی کرنی چاہئیں جیسا کہ قاسم ؒ کی مہندی خود انہی کے بقول کربلا کے میدان میں شب عاشورہ میں لائی گئی تھی۔ (عقل کے اندھوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ دولہا اور دلہن کی رسم مہندی ایک خالصتاََ ہندی رسم ہے عرب علاقوں میں آج بھی مہندی نام کی کوئی رسم نہیں پائی جاتی) اس مہندی کے سلسلے میں ملیدہ بنتا ہے جو سنی جہلاء تعزیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شہداء جو کربلا کے میدان میں خود ان روافض ہی کے ہاتھوں قتل ہوئے اپنے مظلومانہ قتل کے سبب شہید کہلائے جاتے ہیں ۔قرآن و حدیث کے نصوص کی رو سے شہداء کو حق تعالیٰ حیات جاودانی عطا فرماتا ہے۔اسلام میں کسی بھی شخص کی موت یا شہادت پر تین دن سے زیادہ کا سوگ نہیں ماسوابیوہ عورتوں کے، وہ اپنے خاوندوں کی اموات و شہادت پر چار ماہ دس کا سوگ کرتی ہیں پھر اس سوگ کا ہر سال اعادہ نہیں کرتیں مگر ہمارے نادان سنی بھائی ہر سال رافضی حضرات کی دیکھا دیکھی شہدائے کربلا کا سوگ مناتے
Flag Counter