Maktaba Wahhabi

43 - 120
چادریں چڑھانے، منتیں ماننے، نذرونیاز کرنے، شفا مانگنے، اولاد مانگنے، فتح مانگنے اور ان ہی سے اپنی حاجتیں مانگنے میں کھو کر رہ گئے ہیں ۔نہ تو انہیں اﷲیاد آتا ہے اور نہ مسجد کی یاد آتی ہے۔ انہیں اگر کچھ یاد آتا ہے تو ہر جمعرات کو درگاہوں، مزاروں اور آستانوں پر حاضریاں دینی یاد آتی ہیں ۔ ان سے نماز پنجگانہ چھوٹ سکتی ہے، لیکن جمعرات کو مزار پر حاضری نہیں چھوٹ سکتی۔ لوگ انہیں عقیدت کی جگہیں سمجھتے ہیں اور مزارات میں مدفون بزرگانِ دین کو اپنا فریادرس، غریب نواز،مشکل کشاء،حاجت روا اور دستگیروغیرہ سمجھتے ہیں، حالانکہ عالَم یہ ہے کہ ان مزاروں پر منشیات فروخت ہوتی ہیں، زناکاری بکثرت ہوتی ہے، ہیجڑے اور کنجریاں عرسوں میں ان مزارات پر اپنے ڈیرے ڈال کر ناچ رنگ کے پروگرام کرتے ہیں ۔یہ سب کچھ ان مزارات کے احاطوں کے اندر ہوتا ہے ، مگر یہ بزرگان دین اس حرام کاری سے لوگوں کو منع کرنے کی قوت نہیں رکھتے پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ جو اپنے مزار سے ان خرافات کو نہ ہٹا سکتا ہو وہ کسی اور کے بھی کام آسکتا ہے۔ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں بھی نیک لوگوں (انبیائے کرام) کی قبور موجود تھیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ ان قبروں پر پھول چڑھائے، نہ چراغ جلائے نہ ان کو غسل دیا اور نہ ہی ان پر عرس و میلے وغیرہ کروائے، پھر یہ کام ہمارے لیئے کیوں کر جائز ہوگیا؟ مسلمانوں میں الحمدﷲباشعور افراد کی کمی نہیں ہے مگر شیطان نے ایسا چکر چلایا ہے کہ سب توحید بھلادی ہے۔ عقل وخرد سے بے گانہ کردیاہے۔ جو اسلام سارے ادیان پر غالب آنے کیلئے آیا تھا آج وہ جمعرات کی حاضریوں میں محدود کردیا گیا۔وہ مسلمان جن کی پیشانیوں پر اﷲتعالیٰ نے عالم کی حکمرانی کی آیات ثبت کیں آج وہ پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی ہیں ۔ برادرانِ اسلام! یہ عرس اور یہ میلے قبر پرستی کے سوا اور کچھ نہیں ہیں ۔ہندوبتوں کی پوجا کرتا ہے اور مسلمان قبر کی پوجا کر رہے ہیں کیا فرق رہ گیا؟ سنو مولانا حالی تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter