Maktaba Wahhabi

55 - 120
سوال یہ ہے کہ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک بیٹی کو جہیز کیوں ملا تھا؟ کیا باقی صاحبزادیوں کو مسلمانان اہل سنت روافض کی روایات کے مطابق رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں تسلیم نہیں کرتے؟ اگر تسلیم کرتے ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیٹی کو جہیز دیا اور باقی صاحبزادیوں کو کیوں نہیں دیا؟ (جیسا کہ تاریخی روایات سے ثابت بھی ہے) کیا کوئی باپ ایسا کرتا ہے کہ ایک بیٹی کو سازوسامان کے ساتھ گھر سے رخصت کرے اور باقی بیٹیوں کو خالی ہاتھ گھر سے رخصت کردے؟ پھر رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کسی قسم کا گھر گرہستی کا سامان یا جہیز نہیں دیا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس سامان کے ذریعے مدد کی تھی کیونکہ وہ بے حد مفلس اور نادار تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر ادا کرنے کیلئے ایک پھوٹی کوڑی ان کے پاس نہ تھی۔ چنانچہ اپنی زرہ بیچ کر انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر ادا کیا تھا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کفالت کا ذمہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بچپن سے لے رکھا تھا۔ ابو طالب جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے باپ تھے مفلسی کے سبب اپنے بچوں کا خرچ نہیں اٹھا سکتے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مانگ لیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پالا پوسا بلکہ ہر اعتبار سے ان کی کفالت کی۔ اپنی بیٹی ان کے نکاح میں دی، گھر گرہستی کیلئے سامان دیا تھا جو کہ یار لوگوں نے جہیز ِفاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام سے مشہور کردیا لیکن اس شہرت میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں ہے، کیونکہ ایک بیٹی کو اگر دیا تھا تو دوسری بیٹیوں کو محروم رکھنا نا انصافی تھا، جس کی توقع بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں کی جاسکتی۔ ہم ایسا ناروا کلام اپنی زبان پر لانے سے اﷲکی پناہ پکڑتے ہیں ۔ اگرچہ وہ بیٹیاں مالداروں کے نکاح میں گئی تھیں لیکن انصاف کے تقاضے سب کیلئے برابر ہوتے ہیں ۔
Flag Counter