Maktaba Wahhabi

130 - 153
اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہمارے لیے بھی ایک معبود بنادو۔ اس موقع پر مشرکین ایک شبہ اور پیش کرتے ہیں، وہ یہ کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے جس بات کا مطالبہ کیا، اس پر وہ کافر نہیں قرار دئیے گئے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ان اصحاب کو کافر نہیں گردانا، جنہوں نے آپ سے ’’ذات انواط‘‘ مقرر کرنے کو کہا تھا۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے معبود بنانے کا صرف مطالبہ کیا تھا۔ معبود بنایا نہیں تھا۔ اسی طرح بعض صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’ذات انواط‘‘ بنانے کی صرف درخواست کی تھی۔ اس بات پر کسی کا اختلاف نہیں کہ بنی اسرائیل نے جس چیز کا مطالبہ کیا تھا اگر وہ کر گزرتے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مانی ہوتی اور منع کرنے کے باوجود ’’ذات انواط‘‘ بنا لیا ہوتا تو وہ کافر قرار پاتے۔ مذکورہ واقعہ ایک دوسرے پہلو سے اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ ایک مسلمان بلکہ پڑھا لکھا شخص بھی غیر شعوری طور پر شرک میں مبتلا ہو سکتا ہے لہٰذا علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدہ کا تحفظ بھی ضروری ہے اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ عوام الناس کا یہ کہنا کہ ’’ہم نے توحید کو سمجھ لیا ہے‘‘ شیطانی دھوکہ اور بڑی نادانی کی بات ہے۔ مذکورہ واقعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک مسلمان مجتہد اگرلا علمی میں کوئی کفریہ بات کہہ دے اور تنبیہ کے بعد فوراً اس سے توبہ کر لے تو وہ کافر نہیں ہوگا، جیسا کہ بنی اسرائیل نے کیا اور انہوں نے کیا جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’ذات انواط‘‘ کے بارے سوال کیا تھا۔ اس واقعہ سے ایک اہم مسئلہ اور بھی سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ ایسا شخص اگرچہ کافر نہیں ہوتا لیکن بڑے ہی سخت الفاظ میں اس کی تنبیہ ہونی چاہییٔ، جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو فرمائی تھی۔ ……………… شرح ………………… کبھی انسان لاشعوری طور پر کفریہ کام کر گزرتا ہے یاجملہ کہہ جاتا ہے، جیسے بنی اسرائیل
Flag Counter