Maktaba Wahhabi

145 - 153
ہے اور اسے عبادت ہی سمجھ کر کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾(غافر:60) ’’ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ ‘‘ جب انسان خود اپنے لیے دعا کرتا ہے تو وہ اجر کا مستحق ہوتا ہے اس کی یہ نیکی عبادت میں شمار ہوتی ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ پر اعتماد بڑھ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی مجھے فائدہ پہنچاتے ہیں اور وہی مجھ سے نقصان دُور کرسکتے ہیں۔ لیکن جب کسی دوسرے سے دعا کرے گاتو یقینا اس کا اعتماد اور رجحان اسی پر ہوگا کہ یہی مجھے نفع و نقصان پہنچانے کا مالک ہے، ایسی صورت میں یہ اعتماد اور عقیدہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے پر ہو جائے گا جو بڑی خطرناک چیز ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب کوئی کسی آدمی سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ تم میرے لیے دعا کرو، یہ نا مناسب صورت ہے۔‘‘ انسان کو چاہیے خود اپنے لیے دعا کرے تاکہ اس کے دل میں کسی دوسرے سے نفع و نقصان کی امید وابستہ نہ ہو۔ خود دعا کرنے سے یقینا اسے اجر بھی ملے گا جیسا کہ اور کسی مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں دعا کرنے سے فرشتے آمین کہیں گے کہ اے اللہ قبول فرما اور اس دعا کرنے والے کو بھی اس کی مثل عطا فرما۔[1]  ولہم شبہۃ اخریٰ وہی: قصۃ ابراہیم علیہ السلام لما أُلْقِیَ فی النار اعترض لہ جبریل فی الہوائ؛ فقال: ألک حاجۃ؟ فقال ابراہیم: اَمَّا الیک فلا، قالوا:
Flag Counter